مولانا مودودی مرحوم کے سیاسی موقف سے استدلال

منہج سلف نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏اکتوبر، 21, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    مولانا مودودی مرحوم کے سیاسی موقف سے استدلال


    بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر عورت کی سربراہی کی گنجائش اسلام میں نہ ہوتی تو ایوب حان کے دور کے صدارتی انتخاب میں علماء فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرتے- جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب اور بہت سے علماء نے اس وقت ایوب خاں کے مقابلے میں فاطہ جناح کی حمایت کی تھی-
    بلاشبہ اس وقت بعض علماء نے ایوب خاں کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی، جن میں باخصوص مولانا مودودی مرحوم سرفہرست ہیں- اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ ان حضرات نے فاطمہ جناح کی حمایت یہ سمجھتے ہوئے نہیں کی تھی کہ عورت کا سربراہ حکومت بننا اسلام میں جائز ہے، بلکہ انہوں نے اسلام کے اصول (کہ مرد و عورت کا دائرہ کار ان کی فطری صلاحیتوں کے اعتبار سے الگ الگ ہے) کو تسلیم کرتے ہوئے ایک اضطرار کے طور پر حمایت کی تھی- جیسا کہ ان کے بیانات، تقاریر اور مضامین وغیرہ اور اس کے دور کے مخصوص پس منظر سے واضح ہے-
    علاوہ ازیں والانا مودودوی مرحوم کی تو ایک مفصل کتاب "پردہ" (جس کے کچھ حوالاجات ادھر پڑھ سکتے ہیں) اس موضوع پر موجود ہے جس میں انہوں نے پوری تفصیل اور مکمل دلائل سے اسلام کے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اور اپنی تفسیر "تفہیم القرآن" میں بھی متعدد جگہ مغربی نظریہ مساوات مرد و زن کی بھرپور تردید کی ہے- اس لیے ان کے ایک عارضی، وقتی اور سیاسی موقوف کو، جو ان کے خیال میں ایک اضطراری اقدام تھا، بنیاد بناکر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے نزدیک عورت سربراہ حکومت ہوسکتی ہے یا چونکہ انہوں نے ایک عورت کی حمایت کی تھی تو گویا یہ اس بات کی سند ہے کہ اسلام میں عورت کے سربراہ ہونے کی اجازت موجود ہے-
    ایسا دعوای خود مولانہ مودودی مرحوم پر بھی ظلم ہے اور اسلام پر بھی ظلم ہے، کیونکہ یہ واقعات کے سراسر خلاف ہے- رہ گیا مسئلہ ان کے اضطرار کے طور پر حمایت کرنے کا، کہ اس کی کیا حیثیت ہے؟ تو اس کے بارے میں اب سکوت زیادہ بہتر ہے، کیونکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوچکا ہے- اگر ان کی دینی بصیرت، ملی درد اور سیاسی فہم نے اسے " اضطرار" سمجھنے میں ٹھوکر نہیں کھائی تو یقینا عنداللہ وہ مجرم نہیں ہونگے، بلکہ امید کہ وہ دگنے اجر کے مستحق ہوں کے اور اگر ان سے اس موقعے پر اجتہادی امر نہ سمجھا جائے، بلکہ ان کے موقوف کو " سیاسی مصلحت" باور کیا جائے، پھر تو مسئلہ بالکل ہی واضح ہو جاتا ہے- کیونکہ سیاسی مصلحت کے طور پر بھی بعض کام انہوں نے غلط کیے ہین جس سے ان کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا، مثلا: "عید میلاد" کے جلوس کے مولانا مودودی مرحوم قائل نہیں تھے اور اسے صریحا غلط اور ناجائز ہی سمجھتے تھے- (ملاحظہ ہو، روداد جماعت اسلامی، پنجم، 5/ 122، طبع جون 1982ء)
    لیکن 1970ء کے انتخابات کے موقع پر، جب ان کو "شوکت اسلام" کا جلوس نکالنے کی ضرورت پیش آئی تھی، تو اس وقت انہوں نے ایک سوال کےجواب میں جلوس میلاد کا جواز بھی اس اندیشے کے پیش نظر تسلیم کرلیا تھا کہ اس موقعے پر اگر مین نے جلوس میلاد کے جدم جواز کا فتوای دے دیا تو اس کا اثر کہیں "شوکت اسلام" کے جلوس پر نہ پڑ جائے- (ملاحظ ہو اخبار روزنامہ "ندائے اسلام" لاھور، 17 مئی 1970)
    خیال رہے کہ شوکت اسلام کے جلوس کی تاریخ 13 مئی 1970ء تھی جب کہ اس سال "یوم میلاد" 19 اپریل کو پڑا تھا-

    ایک باخبر صحافی کی طرف سے توضیح مزید:

    فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کرتے وقت سیاسی استبداد کی جو صورت تھی اور فاطمہ جناح کے جو وجوہ انتخاب تھے اس کی ضروری تفصیل ایک باخبر صحافی جناب محمد صلاح الدین صاحب مدیر "تکبیر" کراچی کے حسب ذیل اقتباس میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، وہ لکھتے ہیں:
    " اس وقت معاملہ یہ تھا کہ ایوب خان کی امریت سے نجات پانے کی کوئی مناسب صورت تلاش کی جارہی تھی پہلے اعطم خان کا انتحاب کیا گیا – لیکن اس کی بھنک پڑتے ہی خصوصی پیغامبر مولوی فرید احمد کو لاھور ایئرپورٹ پر گرفتار کیا گیا اور اعظم خاں بھی گرفت میں لے لیے گئے-
    چودھری محمد علی، نواب زادہ نصراللہ اور دیگر حضرات نے مادر ملت کی شخصیت میں ایوب خان کا توڑ تلاش کیا- ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا- مولانا مودودی اس وقت جیل میں تھے- فتوے کے لیے پہلے مولانا مفتی محمد شفیع سے رجوع کیا گیا- ان پر دباؤ بڑھا تو دو سطر کا فتوای جاری کردیا کہ
    "دو برائیوں میں کم تر برائی کا انتخاب کرلیا جائے-"
    ایوب خاں اپنی پرویز نوازی، رویت حلال اور عائلی قوانین کی وجہ سے دینی حلقوں میں خاصے ناپسندیدہ قرار پاچکے تھے، مادر ملت صرف عورت نہیں تھیں، محمد علی جناح کی بہن تھیں، پختہ کردار، نیک نام، اور انتہائی محترم خاتون تھیں، سن رسیدہ تھیں، متنازعہ نہ تھیں، ان کے کردار پر کسی حرف گیری کی گنجائش نہ تھی، ان کی ذات سے کوئی اسکینڈل وابستہ نہیں تھا، ان سے قوم کی گہری عقیدت تھی-
    مولانا مودودی کی رہائی سے قبل وہ رائے عامہ کی ترجمان بن چکی تھیں، مولانا نے رہائی پاتے ہی ان کے حق میں رائے دی----وہ عمر کے اس حصے میں تھیں جہاں شریعت پردے وغیرہ کی پابندیوں کو خود ہی نرم کردیتی ہے- جہاں وہ قباحتیں باقی نہیں رہتیں جن کے پیش نظر ٹک کر گھر بیٹھنے اور پردے کے حدود قائم رکھنے کا حکم دیا گیا- اس سب کے باوجود مولانا مودودی کی رائے سے اختلاف کیا گیا- ان کی اپنی جماعت کے لوگوں نے اختلاف کیا------ یہ ایسی رائے نہیں تھی جسے علمائے کرام اور عام مسلمان آسانی سے ہضم کرلیتے- خود مولانا کے فیصلے میں خصوص تھا، عموم نہیں-
    اس معاملے کا دوسرا اور زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ مادر ملت سربراہ حکومت بننے کی امیدوار نہیں تھیں- انہوں نے مزاکرات کرنے والے لوگوں سے صاف کہ دیا تھا کہ میں تحریک کی قیادت کرسکتی ہوں، ملک کی صدارت مجھے منظور نہیں- انہیں جب بتایا گیا کہ موجودہ نظام میں امیدواری صدارت کے بغیر کوئی تحریک نہیں چل سکتی، تو انہوں نے عبوری مدت کا سوال اٹھایا اور پوچھا کہ میری جگہ اصل صدر لانے میں تمہیں کتنا عرصہ لکے گا تو جواب دیا گیا کہ تقریبا ایک سال- مگر انہوں نے اس "طویل عرصے" کو مسترد کردیا اور صرف تین ماہ کے اندر اندر نیا صدر منتخب کرنے کی مہلت دی-
    اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وہاں حصول حکومت کا محرک ہی موجود نہیں تھا- وہ کسی خواھش اقتدار کے بغیر محض آمریت سے نجات دلانے کے لیے میدان میں نکلنے پر آمادہ ہوئی تھیں- اب ان کی عمر، مخصوص حالات، محدود اور متعین مقصد، حصول اقتدار کے محرک کی عدم موجودگی اور صفات کردار سب کو ذھن میں کھا جائے تو اس مثال سے عورت کی حکمرانی کا عام جواز نکال لینے کا کوئی قرینہ نہین بنتا، اس کا کہیں اور اطلاق ہوگا تو عمر، صفات کردار اور مخصوص و محدود مقصد سب ہی کو پیش نطر رکھا جائے گا، محض ہم جنس ہونا کافی نہین ہوگا- کہا جاسکتا ہے کہ اب بھی تو آمریت سے نجات پانے کے لیے ایک طاقتور حریف کی ضرورت تھی، جوابا عرض ہے کہ: وہ "آمر" تو جنگ اقتدار سے قبل ہی اللہ کو پیارا ہوگیا، اب اس کے مقابل آنے کی کیا ضرورت؟ دوسرے مادر ملت کی طرح خواہش اقتدار ترک کیجیے، قوم کی قیادت کا حق ادا ہوگیا- جمہوریت کی منزل سر ہوگئی- اب اپنا متبادل آگے لائیے- یہاں وکئی ایسی ہنگامی یا اظطرارای صورت حال نہیں کہ عورت کی سربراہی کے بغیر مل و ملت کا کام ہی نہیں چل سکے- (ہفت روزہ "تکبیر"، ص: 12-13، 15 دسمبر 1988ء)

    اقتباس: عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین
    تالیف: حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ
     
  2. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    ویری نائس عتیق بھائی اچھا مقالہ ہے
     
  3. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    مولانا مودودی کے کچھ نظریات اور افکار سے اگرچہ مجھے شدید اختلاف ہے لیکن میں‌ ان کی عزت کرتا ہوں کہ توحید کے بنیادی concepts ان ہی کی تحاریر پڑھ کر میرے ذہن میں واضح ہوئے۔
    مولانا مودودی کے خلاف ایک کتاب میں‌نے پڑھی تھی غالبا اس کے مصنف چوہرری خلیق الزمان تھے مسلم لیگ کے کوئی لیڈر اور عنوان تھا کہ مودودیت ایک عذاب اور اس میں مولانا مودودی کی سیاست اور تحاریر میں پائی جانے والی تضاد بیانی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
    واقعی یہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت ان کے خلاف ایک بڑی دلیل ہے کہ انہوں نے کہا تھا " ایوب خان میں اس کے سوا کیا خوبی ہے کہ وہ ایک مرد ہے اور فاطمہ جناح میں اس کے علاوہ کیا خامی ہے کہ وہ ایک عورت ہے" یا کچھ اس سے ملتا جلتا کچھ کہا تھا۔
    خیر سنا ہے کہ مولانا مودودی نے بھی زندگی کے آخر میں یہ عندیہ دیا تھا کہ جمہوریت سے کبھی اسلام نہیں آ سکتا
     
  4. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    سلفی بھائی تصیح کرونگا کہ مولانا صاحب نے فرمایا تھا کہ موجودہ نطام جمہوریت سے اسلام نہیں آسکتا کیونکہ ایک آمر جمہوریت کو سمجھ ہی نہیں سکتا ہے ۔ ۔ ۔

    یہ بھی ٹھیک ہے کہ مولانا صاحب کے کافی سیاسی نظریات کے متعلق کافی مختلف آرا ہیں مگر مولانا کی دینی خدمات سے انکار بہرحال نہیں کیا جا سکتا ہے
     
  5. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    مولانہ مودودی کے دینی افکار جاننے کیلئے مختلف علماوں کے آرٹیکلس پر مشتمل کتاب جماعت اسلامی کو پہچانئے کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
     
  6. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    اہل علم کی توجہ مضمون کے لفظ مرحوم کی طرف کرنا چاہتے ہوے وضاہت چاہونگا کہ ایا لفظ مرحوم لکھا جا سکتا ہے یا نہی؟

    مولانا مودودی مرحوم کے سیاسی موقف سے استدلال

    جزاک اللہ خیرا
     
  7. سیف اللہ

    سیف اللہ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 1, 2008
    پیغامات:
    195
    معذرت ابوعبداللہ بھائی! مجھے آپ کے موقف سے اتفاق نہیں ہے! شکریہ کا بٹن غلطی سے دب گیا تھا۔
    مولانا مودودی رحمہ اللہ کے دینی افکار جاننے کے لئے ’’مختلف علماوں کے آرٹیکلس‘‘ کے بجائے خود سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ ہی کی کتب کا جائزہ لیں اور جو بھی اعتراض ہو، اسے دیکھ لیا جائے ۔ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کی اس بات سے 100 فیصد متفق ہوں‌ کہ کسی بھی نظریہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے آفیشل لٹریچر کو پڑھا جائے۔
     
  8. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    السلام علیکم،

    میرے بھائی یہاں چونکہ بات مودودی صاحب کے دینی افکار کی چل رہی تھی اسلئیے میں نے مختلف سلفی علماوں کے مدلل مضامین والی کتاب کا نام لکھا تھا۔

    چونکہ بات دینی افکار کی چل رہی ہے تو ایک اور کتاب جسکو حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے لکھا ہے جوکہ مدلل ہے پڑھنی چاہئیے۔

    باقی رہا مسئلہ پسند و نا پسند کا تو بھائی عرض یہ ہیکہ یہاں پر سب بھائی اپنا قیمتی وقت اللہ کو راضی کرنے اور ثواب حاصل کرنے کیلئے نکالتے ہیں ان شااللہ۔
     
  9. لالکائی

    لالکائی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 15, 2008
    پیغامات:
    175
    سیف اللہ بھائی نے بالکل درست بات کہی ھے۔ اور زیادہ اچھی بات یہ کہ انہوں نے 'اپنی' کہنے کے بجائے اپنے خاص میدان (تحقیق و تنقید اور تقابل ادیان) کے ایک عالمی شہرت یافتہ عالم کا حوالہ دیا ھے۔ عقل عام بھی ویسے یہی کہتی ھے کہ کسی بھی شخص کے افکار و نظریات اس کے اپنے الفاظ میں بیان کردہ افکار ہی سمجھے جائیں۔ ناکہ کسی دوسرے سے خواہ وہ کتنا ہی اس کا 'معتقد' و 'پیرو' ہو۔

    یہ آپ ''سلفی علماء'' کن کو سمجھتے ہیں؟؟؟
    میرے نزدیک تو سید مودودی رحمہ اللہ بھی عین ''سلفی'' عالم ہیں۔بلکہ وہی تو ایک ایسے عالم ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں تن تنہا نجانے کتنے ہی "سلفییوں" کی امامت کی ھے۔۔!!!
    میرے نزدیک ''سلفی'' ہر وہ شخص ھے جو سلف صالحین کے "عقیدہ و منہج" ہو۔اور علامہ مودودی رحمہ اللہ عقیدہ کے ایک آدھ "مخفی مسائل" کے اثتثناء سے پورے کے پورے "سلفی العقیدہ" ہیں۔

    حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ کی کتاب "خلافت و ملوکیت" اپنے موضوع پر لاجواب کتاب ھے۔
    مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ کہ حافظ صاحب نے علامہ مودودی رحمہ اللہ کے "دینی افکار" ہی پر تیشہ رکھ چھوڑا ھے۔
    انہوں نے سید مودودی رحمہ اللہ کی ہمہ جہت فکر اسلامی میں سے صرف "ایک فکر" کو مضوع بنایا ھے جس سے یہ کتاب بحث کرتی ھے۔جو کو سید مودودی رحمہ اللہ کی کتاب "خلافت و ملوکیت" کا ایک بہترین اور مدلل جواب ھے اور بس!!!
     
  10. عبداللہ حیدر

    عبداللہ حیدر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2008
    پیغامات:
    147
    مودودی صاحب کی کچھ تحریریں واقعی متنازعہ ہیں جن پر اہل سنت و الجماعت کے اکثر علماء نے گرفت بھی کی ہے۔ خلافت و ملوکیت اور تجدید و احیائے دین کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی تحریروں نے برصغیر میں بالخصوص اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بالعموم نوجوان نسل کو اسلام سے بالکل ہی دور ہونے سے بچائے رکھا ہے۔
    سیف اللہ بھائی کی بات سو فیصد درست ہے کہ کسی شخص کے نظریات سمجھنا ہوں تو اس کی کتابوں کا براہ راست مطالعہ کرنا چاہیے۔ مودودی صاحب کے بعض نظریات سے اختلاف رکھنے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں‌ہے کہ میں نے ان کے خلاف لکھی گئی اکثر کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، ان میں سے چند ایک ہی ہیں جو علمی اور تحقیقی رد کے انداز میں لکھی گئی ہیں جیسے صلاح الدین یوسف کی کتاب خلافت و ملوکیت کے جواب میں۔ ورنہ کیا دیوبندی اور کیا بریلوی اور کیا سلفی، سب کے سکہ بند مولویوں نے جو الزام تراشیاں اپنی کتابوں میں کی ہیں انہیں نرم الفاظ میں بھی علمی بددیانتی ہی کہا جا سکتا ہے۔
     
  11. عبداللہ حیدر

    عبداللہ حیدر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2008
    پیغامات:
    147
    مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عنفوان شباب میں مجھ پر الحاد کا دورہ پڑ رہا تھا اور عجیب و غریب خیالات دماغ میں سر اٹھاتے رہتے تھے۔ اللہ کر کرنا ایسا ہوا کہ سخت اور مسلسل بخار کی وجہ سے بستر سے لگ کر رہ گیا اور بیماری کی اسی حالت میں "اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات" کا مطالعہ کر ڈالا۔ یقین مانیے زندگی میں شاید وہ پہلا دن تھا جب میں نے شعوری طور پر اسلام قبول کیا۔ اور اس کا سارا کریڈٹ اللہ کے اس بندے کو جاتا ہے۔
     
  12. لالکائی

    لالکائی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 15, 2008
    پیغامات:
    175
    "اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات"

    علامہ مودودی رحمہ اللہ تعالی کی بے مثال اور انتہائی مفید 11 تحریروں کا مجموعہ ھے۔
    جو باالترتیب حسب ذیل ہیں:
    1-توحید و رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
    2-سلامتی کا راستہ
    3-اسلام اور جاہلیت
    4-دین حق
    5-اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر

    6-تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں
    7-بناؤ اور بگاڑ
    8-جہاد فی سبیل اللہ
    9-شہادت حق

    10-مسلمانوں کا ماضی حال اور مستقبل
    11-اسلام کا نظام حیات

    میرا بھائیوں کو مخلصانہ مشورہ ھے کہ سب کے سب بھائی اس کو ضرور ہی پڑھ لیں۔یہ تمام مقالہ جات پمفلٹس کی صورت میں علیحدہ علیحدہ بھی میسر ہیں۔ اگر آپ سب نہیں پڑھ سکتے تو کم ازکم 4،5،6،9،11 والے مضامین تو ضرور ہی پڑھ لیں ۔اور کچھ نہیں تو "تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں" تو ہر صورت پڑھ ڈالیں۔ اس میں علامہ مودودی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی تحریک اسلامی کے مشن اور اسلام کے اخلاقی اصولوں پر انتہائی مدلل دلنشیں اور اور جامع اور وسیع (جیسا کے ان کا انداز ھے) روشنی ڈالی ھے۔

    موجودہ دور میں اسلام کے خلاف ''علمی'' محاذ پر جاہلیت کے جڑ کاٹنے والی اگر کوئی تحریریں ہیں تو وہ علامہ مودودی رحمہ اللہ ہی کی ہیں۔ اور بالخصوص موجودہ دور میں اسلام کو بحیثیت ایک "نظام " کے پیش کرنے کے اور پھر پیش کرنے سے بڑھ کر اس کو عملا دنیا میں برپا کرنے کی اگر کسی نے کوئی صالحہ کوشش کی ھے تو وہ مولانا مودودی رحمہ اللہ ہی کی ذات ھے۔اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
     
  13. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,953
    السلام علیکم‌!
    مولانا مودودی رحمہ اللہ کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ـ "خلافت اور ملوکیت " کو لکھ کر انھوں نے جو ٹھوکر کھائی تھی اللہ تعالٰی اسے معاف فرمائے ـ ان کی تحریروں میں جو مواد قرآن و سنت کے مخالف ہے وہ چھوڑ کر باقی لیا جا سکتا ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ عام مسلمان کو چاہیے کہ اس سلسلے میں مستند علما ء سے راہنمائی حاصل کرے کہ مولانا کی کون سی تحریریں پڑھی جا سکتی ہیں اور کون سی نہیں ـ مولانا کی تحریروں سے اگر عبد اللہ حیدر کا اسلامی شعور جاگ سکتا ہے تو ان کی تحریروں سے کسی کا اسلامی شعور جا بھی سکتا ہے ـ اس لیے صرف انہی تحریروں کا ہی مطالعہ کرے جن پر علما ء نے اعتراض نہیں کیا ـ ہاں اگر کوئی اتنا علم رکھتا ہے کہ اس کی خلاف شریعت تحریریں میں فرق کر سکتا ہے تو شوق سے پڑھے ـ میرا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مولانا مودودی رحمہ اللہ کے علم کی تعریف و تحسین کرتا ہے تو اس کا چاہے کہ ان کی علمی غلطیوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی ساتھ ہی ساتھ کر دیا کرے ـ
     
  14. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    السلام علیکم،

    مزید بہت کچھ لکھا بھی جاسکتاہے اور دلائل بھی دئیے جاسکتے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہےکہ آدمی تحقیق کرے اور کسی بھی عالم کی بات اگر منہج السلف کے خلاف ہو تو حق یہی ہے کہ اس بات کو چھوڑ دیا جائے۔

    شیخ توصیف الرحمٰن صاحب کی وی سی ڈیز (اقامت دین اورجماعت اسلامی اور تعاف جماعت اسلامی) جس میں تمام دلائل موجود ہیں دیکھیں ان شااللہ تمام اشکالات کا مدلل جواب مل جائیگا۔

    بھائی عکاشہ کے موقف کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ اور کچھ لکھنے کی ضرورت ہے۔

    امام مالک رحمہ اللہ نے کیا ہی خوب بات کہی ہے کہ کسی کی بات لی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
     
  15. لالکائی

    لالکائی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 15, 2008
    پیغامات:
    175
  16. عبداللہ حیدر

    عبداللہ حیدر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2008
    پیغامات:
    147
    آپ اور عکاشہ بھائی نے اچھی بات کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہی کی ذات ہے جس کے بارے میں غلطی کا تصور بھی نہیں‌کیا جا سکتا۔ ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سوا ہر شخص غلطی کر سکتا ہے۔
    بھائی! میرا موقف اور منہج کسی کے ساتھ تعصب کا نہیں‌ ہے۔ جو بات مجھے غلط لگے میں اسے غلط کہتا ہوں چاہے وہ مودودی صاحب کی طرف سے ہو یا کسی دوسرے کی جانب سے۔ علمی اور تحقیقی اختلاف کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ خلافت و ملوکیت کا رد جو صلاح الدین یوسف صاحب نے لکھا ہے اسے بہترین جواب تصور کیا جانا چاہیے۔ تحقیق کے ساتھ رد ایک دوسری شئے ہے اور الزام تراشی دوسری چیز۔ میں‌ نے مودودی صاحب کے حق میں‌ اور ان کی مخالفت میں کافی مواد اکٹھا کیا تھا۔ کئی صاحبان جبہ و دستار اور اتباع سنت کے دعویداروں کی کتابیں دیکھیں جن میں سیاق و سباق ہٹی ہوئی عبارتوں کو بنیاد بنا کر وہ بہتان تراشیاں کی گئی ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ایک "شیخ المشائخ" کا کتابچہ پڑھ کر تو میں حیران رہ گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مودودی دو بہنوں کے نکاح کو جائز کہتا ہے اور پھر اس مفروضے کو تمام جماعتیوں کے عقیدے کے طور پر پیش کرتے ہوئے نتیجہ نکالا گیا کہ جماعت اسلامی والوں سے نکاح و رشتے داری کرنی حرام ہے۔ اصل کتاب سے رجوع کیا تو معلوم ہوا یہ بات ایک خاص مشکل کے جواب میں کہی گئی ہے۔ سوال کرنے والے نے دریافت کیا تھا کہ دو بہنوں کی پشت پیدائشی طور پر ایکدوسرے سے جڑی ہے جسے ‌الگ کرنا ناممکن ہے تو ان کا نکاح ایک شخص سے کیا جائے یا دو سے؟ اس کے جواب میں اضطرار کو دلیل بناتے ہوئے ایک شخص سے نکاح کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس شخص نے جس کے تقوٰی کے قصے زبان زدعام ہیں، سارے سیاق و سباق کو گول کرتے ہوئے اپنے مطلب کا ایک جملہ نکالا اور فتووں کی بوچھاڑ کر دی۔ اسی کتاب میں سنت کے بارے میں‌ نہ جانے کہاں سے ایک جملہ پکڑا اور اسے مودودی کا عقیدہ سنت کے بارے میں کے عنوان سے بیان کر دیا۔ لکھتے ہیں "سنت کے بارے میں عقیدہ دل تھام کر سنیے گا، مودودی لکھتا ہے "سنت کی بات تو چھوڑیے اگلے زمانوں کی بکواس کون سنتا ہے"۔ اصل مقام سے رجوع کیا تو معلوم ہوا وہاں کفر نہیں "نقل کفر" ہے۔ ایسی بہت سے مثالیں مل جائیں گی۔ سچی بات ہے اپنی اس تحقیق کے بعد مجھے کسی کے خلاف لکھی گئی کتاب پڑھ کر اس وقت تک یقین نہیں‌آتا جب تک میں اصل مصدر سے تصدیق نہ کر لوں۔
    اور آخر میں یہ بات کہ مجھے مودودی صاحب کے دفاع کا شوق نہیں ہے، جو باتیں ان کی غلط ہیں وہ غلط ہیں۔ اور بقول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہر شخص کا قول لیا بھی جا سکتا ہے اور ترک بھی کیا جا سکتا ہے سوائے اس قبر والے کے (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
     
  17. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    آپ کی ان باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ عرصہ قبل میں خود بھی کنفیوز ہوا کرتا تھا۔ لہذا میں نے بھی وہی پالیسی اپنائی جس کا ذکر آپ نے کیا ہے۔
    حتیٰ کہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی کتاب پڑھتے وقت بھی میں "خلافت و ملوکیت" کی دو جلدیں سامنے رکھتا ہوں (ایک پاکستان کی مطبوعہ اور دوسری انڈیا کی)۔ لیکن بہرحال حافظ صاحب نے ملتِ اسلامیہ کے اس نازک موقف پر مودودی علیہ الرحمۃ کی صحیح گرفت کی ہے اور ان کی کتاب سے اقتباسات دینے میں ذرہ برابر بھی بددیانتی نہیں دکھائی ہے۔ کاش کہ جماعت کے اعلیٰ عہدیدار اس زہریلی کتاب کو بازار سے ہٹا دیں۔
     
  18. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    شعوری طور پر دینی کتب کے مطالعے کی جانب رحجان بنانے میں میرے لیے مودودی علیہ الرحمۃ کی کتاب "خطبات" کا بڑا ہاتھ رہا۔
     
  19. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    السلام علیکم۔
    اگر آپ اور عبداللہ حیدر بھائی رضامندی ظاہر کریں تو ہم چند ساتھی مل کر اس کتاب کو یونیکوڈائز کر لیتے ہیں۔ یا پھر جیسا کہ آپ نے کہا ، پہلے ہم مضامین نمبر 4،5،6،9،11 کو کمپوز کر لیتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟
    لالکائی ، عبداللہ حیدر ، عتیق الرحمٰن ، باذوق ، یہ 4 ساتھی اگر ان پانچ مضامین کو بانٹ لیں تو ایک نیک کام کی شروعات ہو سکتی ہے۔
     
  20. عبداللہ حیدر

    عبداللہ حیدر -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2008
    پیغامات:
    147
    بہت شکریہ باذوق بھائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں