ن۔م راشد تعارف و انتخابِ کلام

سخنور نے 'کلامِ سُخن وَر' میں ‏اکتوبر، 30, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    ن م راشد - ایک تعارف

    نذر محمد راشد عام طور پر جو کہ ن م راشد کے نام سے جانے جاتے ھیں 1910 میں آکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے (موجودہ علی پور چٹھہ جو کہ اب پاکستان میں ہے) ابتدائی تعلیم آکال گڑھ اور اعلٰی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی- اردو اور فارسی سے محبت انہیں اپنے والد اور دادا سے وراثت میں ملی- غالب، اقبال، حافظ شیرازی اور سعدی سے راشد کا تعارف انکے والد فضل الٰہی چشتی کے ہی طفیل ہوا- گورنمنٹ کالج، لاہور میں تعلیم کے دوران راشد "راوی" کے اڈیٹر مقرّر ہوئے، بعد میں کچھ وقت کے لئے وہ تاجور نجیب آبادی کے رسالے شاہکار کی بھی ادارت کرتے رہے- کچھ عرصہ ملتان میں کمشنر آفس میں سرکاری ملازمت بھی کی اور اسی دوران راشد نے اپنی پہلی آزاد نظم "جراءت پرواز" لکھی جو کہ انکے پہلے مجموعے "ماوراء" میں شامل ہے - ضمنا" ایک ذکر کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے اشاعتی ادارے کا نام بھی ان کے اسی مجموعے کے نام سے متاثر ہو کر رکھا گیا-

    1939 میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد انہیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان میں وہ ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے- کچھ عرصہ انہیں پاکستان کی طرف سے اقوام ِمتحدّہ کے صدر دفتر نیویارک میں بھی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا - ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور اکتوبر 9 ، 1975 کو وہیں انتقال کیا - ان کی وصیّت کے مطابق انہیں ایک فرنس میں جلا دیا گیا- (راشد کے بعد دوسری شخصیت عصمت چغتائی کو بھی انکی وصیّت کے مطابق آگ میں جلایا گیا)

    راشد نے اپنے شاعر ہونے کا پتہ اپنے سکول دور میں ہی دے دیا تھا، تب وہ ردیف اور قافیہ میں پابند تھے- بعد میں انہوں نے ردیف اور قافیہ سے بے نیاز ہو کر جو شاعری کی وہ انہی کا خاصہ بن کر رہ گئ ان سے پہلے اور ان کے بعد ایسی آزاد شاعری کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی - اس ضمن میں ایک واقعہ جو کہ ان کے آل انڈیا ریڈیو کے زمانے کا ہے، قابل ذکر ہے - راشد نے اس وقت کے ایک بہت بڑے شاعر یاس یگانہ چنگیزی کو انٹرویو کے لیے بلایا تو کچھ دوست احباب شاعری پر گفتگو کر رہے تھے اور یاس یگانہ چنگیزی صاحب چونکہ آزادنظم کے سخت خلاف تھے اسلیے آزاد نظم کی مخالفت میں کافی لے دے کر رہے تھے کہ یکایک کسی نے ان سے کہا کہ راشد بھی آزاد نظم کہتے ہیں آپ ان سے ان کی نظم سنیں - راشد نے اپنی نظم سنائی تو یگانہ نے اٹھ کر انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اگر یہ آزاد نظم ہے تو صرف تمہیں ہی آزاد نظم کہنے کا حق حاصل ہے - اس واقعے کی ایک خاص اہمیت ہے اور وہ یہ کہ راشد کی طرز کی آزاد نظم نہ تو کسی نے ان سے پہلے کہی اور نہ ھی بعد میں- یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ راشد کا ہر مصرع وزن میں ہے اور پورے کلام میں ایک بھی ایسا مصرع نہیں جو وزن سے خارج ہو - جبکہ آج کل کی آزاد نظم کو مادر پدر آزاد سمجھا جاتا ہے اور اس میں وزن کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا -

    راشد کی شاعری عام شاعری نہیں اور یہ شاعری عام قارئین کے ذوق سے بھی ھٹ کر ہے - راشد کے ہاں جو استعارے اور تلمیحات استعمال ھوئی ھیں وہ نامانوس اور غیر روائیتی ہیں اسی لیے اکثر، عام قاری کے لیے انکا کلام نا فہم بھی ھو جاتا ہے - راشد کی شاعری اپنی ہم عصر فرانسیسی اور انگریزی شاعری سے متاثر ہے لیکن سب سے زیادہ انکی شاعری اپنی ہم عصر فارسی شاعری سے متاثر ہے- ان کی تلمیحات اور استعارات کی جڑیں براہ راست انکی ہم عصر فارسی شاعری سے جڑی ہوئی نظر آ تی ہیں - اس لیے انکی شاعری کو سمجھنے کے لیے انکی ہم عصر فارسی شاعری کا مطالعہ کرنا مدد گار ثابت ہوگا -

    انکی چار کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں -
    1- ماوراء
    2- ایران میں اجنبی
    3- لا=انسان
    4- گماں کا ممکن

    تراجم
    1- جدید فارسی شاعری (تراجم) (شائع کردہ، انجمن ترقی ادب، کلب روڈ لاہور)
    1
    "ماوراء پبلشرز" سے انکے کلیات "کلیات راشد" بھی دستیاب ہیں-
     
  2. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    اسرافیل کی موت

    ن م راشد نے یہ نظم ایوب کے مارشل لا کے دور میں تحریر و تقریر کی آزادی پر پابندی لگنے کے بعد کے تناظر میں لکھی تھی -

    اسرافیل کی موت - از ن م راشد

    مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
    وہ خداؤں کا مقرّب، وہ خداوندِکلام
    صوت انسانی کی روح ِجاوداں
    آسمانوں کی ندائے بے کراں
    آج ساکت مثل ِ حرفِ ناتمام
    مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ!

    آؤ، اسرافیل کے اس خوابِ بے ہنگام پر آنسو بہائیں
    آرمیدہ ہے وہ یوں قرنا کے پاس
    جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے
    ریگ ساحل پر، چمکتی دھوپ میں، چپ چاپ
    اپنے صور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ہے!
    اس کی دستار، اس کے گیسو، اس کی ریش
    کیسے خاک آلودہ ہیں!
    تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود!
    کیسے اس کا صور، اس کے لب سے دور،
    اپنی چیخوں، اپنی فریادوں میں گم
    جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود!

    مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاوء
    وہ مجسّم ہمہمہ تھا، وہ مجسّم زمزمہ
    وہ ازل سے تا ابد پھیلی ھوئی غیبی صداؤں کا نشاں!

    مرگِ اسرافیل سے
    حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر،
    ابن آدم زلف در خاک و نزاز
    حضرت یزداں کی آنکھیں غم سے تار
    آسمانوں کی صفیر آتی نہیں
    عالم لاہوت سے کوئی نفیر آتی نہیں!

    مرگِ اسرافیل سے
    اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
    مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق
    اب مغنّی کس طرح گائے گا اور گائے کا کیا
    سننے والوں کے دلوں کے تار چب!
    اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا
    بزم کے فرش و در و دیوار چپ!
    اب خطیبِ شہر فرمائے گا کیا
    مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چپ!
    فِکر کا صیّاد اپنا دام پھیلائے گا کیا
    طائرانِ منزل و کہسار چپ!

    مرگِ اسرافیل ہے
    گوش شنوا کی، لبِ گویا کی موت
    چشم ِبینا کی، دلِ دانا کی موت
    تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو
    ــــــــ اہل دل کی اہل دل سے گفتگو
    اہل دل ــــــــــ جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو!
    اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم
    اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گم!
    یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم!

    مرگِ اسرافیل سے،
    اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا، پتھرا گیا
    جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا،
    ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں
    ایسا سنّاٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں!

    مرگِ اسرافیل سے
    دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
    زباں بندی کے خواب!
    جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
    اس خداوندی کے خواب!
     
  3. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    زندگی سے ڈرتے ہو؟

    زندگی سے ڈرتے ہو؟ - از ن م راشد

    ــــــــ زندگی سے ڈرتے ہو؟
    زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
    آدمی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
    آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
    اس سے تم نہیں ڈرتے!
    حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ھے وابستہ
    آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
    اس سے تم نہیں ڈرتے!
    "ان کہی" سے ڈرتے ہو
    جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
    اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

    ـــــــ پہلے بھی تو گزرے ہیں،
    دور نارسائی کے، "بے ریا" خدائی کے
    پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
    یہ شب زباں بندی، ہے رہ ِخداوندی!
    تم مگر یہ کیا جانو،
    لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
    ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
    نور کی زباں بن کر
    ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
    روشنی سے ڈرتے ہو؟
    روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
    روشنی سے ڈرتے ہو!

    ــــــــــ شہر کی فصیلوں پر
    دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
    رات کا لبادہ بھی
    چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
    اژدہام ِانساں سے فرد کی نوا آئی
    ذات کی صدا آئی
    راہِ شوق میں جیسے، راہرو کا خوں لپکے
    اک نیا جنوں لپکے!
    آدمی چھلک اٹّھے
    آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
    تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
     
  4. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    شہر میں صبح

    شہر میں صبح -- از ن م راشد

    مجھے فجر آئی ہے شہر میں
    مگر آج شہر خموش ہے!

    کوئی شہر ہے،
    کسی ریگ زار سے جیسے اپنا وصال ہو!
    نہ صدائے سگ ہے نہ پائے دزد کی چاپ ہے
    نہ عصائے ہمّتِ پاسباں
    نہ اذانِ فجر سنائی دے ــــــ

    اب وجد کی یاد، صلائے شہر،
    نوائے دل
    مرے ھم رکاب ہزار ایسی بلائیں ہیں!
    (اے تمام لوگو!
    کہ میں جنھیں کبھی جانتا تھا
    کہاں ہو تم؟
    تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا
    کہ ہو دور قیدِ غنیم میں؟
    جو نہیں‌ ہیں قیدِ غنیم میں
    وہ پکار دیں!)

    اسی اک خرابے کے سامنے
    میں یہ بار ِدوش اتار دوں
    ِِِمجھے سنگ و خشت بتا رہے ہیں کہ کیا ہوا
    مجھے گرد و خاک سنا رہے ہیں وہ داستاں
    جو زوالِ جاں کا فسانہ ہے
    ابھی بُوئے خوں ہے نسیم میں ـــــــــ
    تمہیں آن بھر میں‌خدا کی چیخ نے آلیا
    ــــــــــ وہ خدا کی چیخ
    جو ہر صدا سے ہے زندہ تر

    کہیں گونج کوئی سنائی دے
    کوئی بھولی بھٹکی فغاں ملے،
    میں پہنچ گیا ہوں تمہارے بستر خواب تک
    کہ یہیں سے گم شدہ راستوں کا نشاں ملے!
     
  5. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    اندھا کباڑی

    اندھا کباڑی -- از ن م راشد

    شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ھوئے
    پا شکستہ سر بریدہ خواب
    جن سے شہر والے بے خبر!

    گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
    کہ ان کو جمع کر لوں
    دل کی بھٹی میں تپاؤں
    جس سے چھٹ جائے پرانا میل
    ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
    چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
    جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
    پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے!

    "خواب لے لو خواب ـــــــــــ "
    صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا ـــــــــ
    "خواب اصلی ہیں کہ نقلی"
    یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
    خواب داں کوئی نہ ہو!

    خواب گر میں بھی نہیں
    صورت گر ثانی ہوں بس ـــــــ
    ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!

    شام ھو جاتی ہے
    میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ـــــــ
    "مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب ـــــــــ"
    "مفت" سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
    اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ ــــــــــ
    "دیکھنا یہ "مفت" کہتا ہے
    کوئی دھوکا نہ ہو!
    ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
    گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
    یا پگھل جائیں یہ خواب
    بھک سے اڑ جائیں کہیں
    یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب ـــــــــ
    جی نہیں کس کام کے؟
    ایسے کباڑی کے یہ خواب
    ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!"

    رات ہو جاتی ہے
    خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
    منہ بسورے لوٹتا ہوں
    رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
    "یہ لے لو خواب ــــــــ"
    اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
    خواب لے لو، خواب ــــــــــ
    میرے خواب ـــــــــــ
    خواب ـــــــــ میرے خواب ـــــــــ
    خو ا ا ا ا ب ــــــــــــ
    ان کے د ا ا ا ا م بھی ی ی ی ـــــــــــــ"
     
  6. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    رقص

    رقص -- از ن م راشد

    اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
    زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
    ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
    رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
    ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
    اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

    اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
    رقص کی یہ گردشیں
    ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
    کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا ہوں میں!
    جی میں کہتا ھوں کہ ہاں،
    رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
    کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نا پائے!

    اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
    زندگی میرے لیے
    ایک خونیں بھیڑ یے سے کم نہیں
    اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
    ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
    جانتا ھوں تو مری جاں بھی نہیں
    تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
    تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ھے
    جو رھیں مجھ سے گریزاں آج تک!

    اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
    عہد پارینہ کا میں انساں نہیں
    بندگی سے اس در و دیوار کی
    ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
    جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
    زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
    اس لیے اب تھام لے
    اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!
     
  7. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    زندگی اک پیرہ زن!

    زندگی اک پیرہ زن!
    جمع کرتی ھے گلی کوچوں میں روز و شب پرانی دھجیاں!
    تیز، غم انگیز، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن
    بال بکھرے، دانت میلے، پیرہن
    دھجیوں کا ایک سونا اور نا پیدا کراں، تاریک بن!

    لو ہوا کے ایک جھونکے سے اڑی ہیں ناگہاں
    ہاتھ سے اس کے پرانے کاغذوں کی بالیاں
    اور وہ آپے سے باہر ہو گئی
    اس کی حالت اور ابتر ہو گئی
    سہہ سکے گا کون یہ گہرا زیاں

    اب ہوا سے ہار تھک کر جھک گئی ھے پیرہ زن
    جھک گئی ہے پاؤں پر، جیسے دفینہ ہو وہاں!
    زندگی، تو اپنے ماضی کے کنوئیں میں جھانک کر کیا پائے گی

    اس پرانے اور زہریلی ہواؤں سے بھرے، سونے کنویں میں
    جھانک کر اس کی خبر کیا لائے گی
    اس کی تہہ میں سنگریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں
    جز صدا کچھ بھی نہیں!
     
  8. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

    کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟ - از ن م راشد

    لب بیاباں، بوسے بے جاں
    کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ہم؟
    جسم کی یہ کار گاہیں
    جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!
    نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے
    کہ جیسے دزدِ شبِ گرداں کوئی!
    شام سے تھے حسرتوں کے بندہ بے دام ہم
    پی رھے تھے جام پر ہر جام ہم
    یہ سمجھ کر، جرعہ ِپنہاں کوئی
    شائد آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے

    مطلب آساں، حرف بے معنی
    تبسّم کے حسابی زاو یے
    متن کے سب حاشیے،
    جن سے عیش خام کے نقش ریا بنتے رہے!
    اور آخر بعُد جسموں میں سر مو بھی نہ تھا
    جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
    قرب چشم و گوش سے ہم کونسی الجھن کو سلجھاتے رہے!
    کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
    شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم!
    زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو
    یا زوال عمر کا دیو سبک پا رو برو
    یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
    کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
     
  9. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    آئینہ حسّ و خبر سے عاری

    آئینہ حسّ و خبر سے عاری


    آئینہ حسّ و خبر سے عاری،
    اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
    منحصر ہستِ تگا پوئے شب و روز پہ ہے
    دلِ آئینہ کو آئینہ دکھائیں کیسے؟
    دلِ آئینہ کی پہنائی بے کار پہ ہم روتے ہیں،
    ایسی پہنائی کہ سبزہ ہے نمو سے محروم
    گل ِنو رستہ ہے بو سے محروم!

    آدمی چشم و لب و گوش سے آراستہ ہیں
    لطفِ ہنگامہ سے نور ِمن و تو سے محروم!
    مے چھلک سکتی نہیں، اشک کے مانند یہاں
    اور نشّے کی تجلّی بھی جھلک سکتی نہیں
    نہ صفائے دلِ آئینہ ِگزرگاہِ خیال!

    آئینہ حسّ و خبر سے عاری
    اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
    آئینہ ایسا سمندر ہے جسے
    کر دیا دستِ فسوں گر نے ازل میں ساکن!
    عکس پر عکس در آتا ہے یہ امّید لیے
    اس کے دم ہی سے فسونِ دلِ تنہا ٹوٹے
    یہ سکوتِ اجل آسا ٹوٹے!

    آئینہ ایک پر اسرار جہاں میں اپنے
    وقت کی اوس کے قطروں کی صدا سنتا ہے،
    عکس کو دیکھتا ہے، اور زباں بند ہے وہ
    شہر مدفون کے مانند ہے وہ!
    اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
    آئینہ حسّ و خبر سے عاری!
     
  10. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    میرے بھی ہیں کچھ خواب

    میرے بھی ہیں کچھ خواب - از ن م راشد

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
    میرے بھی ہیں کچھ خواب!
    اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے،
    پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
    ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
    اے عشق ازل گیر و ابد تاب
    میرے بھی ہیں کچھ خواب!

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
    میرے بھی ہیں کچھ خواب
    وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
    وہ خواب جو آسودگیء مرتبہ و جاہ سے،
    آلودگیء گرد سر راہ سے معصوم!
    جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
    خود زیست کا مفہوم!

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب،
    اے کاہن دانشور و عالی گہر و پیر
    تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر
    تو نے ہی سجھائی غم دلگیر کی تسخیر
    ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر
    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
    میرے بھی ہیں کچھ خواب!

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب،
    کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
    اجڑے ہوئے مذہب کے بنا ریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
    شیراز کے مجذوب تنک جام کے افکار کے نیچے
    تہذیب نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے!

    کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ھوئے نور سے مرعوب
    نے حوصلہءخوب ہے، نے ہمت نا خوب
    گر ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی انھیں محبوب
    ہیں آپ ہی اس ذات کے جاروب
    ـــــــــ ذات سے محجوب!

    کچھ خواب ہیں جو گردش آلات سے جویندہء تمکین
    ہے جن کے لیے بندگی قاضی حاجات سے اس دہر کی تزئین
    کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تامین
    کچھ خواب کہ جن کا ہوس جور ہے آئین
    دنیا ہے نہ دین!

    کچھ خواب ہیں پروردہء انوار، مگر ان کی سحر گم
    جس آگ سے اٹھتا ہے محبّت کا خمیر، اس کے شرر گم
    ہے کل کی خبر ان کو مگر جز کی خبر گم
    یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبہ دیدہءتر ہیچ
    دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ
    ــــــــ عرض ہنر ہیچ!

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب
    یہ خواب مرے خواب نہیں ہیں کہ مرے خواب ہیں کچھ اور
    کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دور
    خوابوں کے نئے دور میں، نے مور و ملخ، نے اسد و ثور
    نے لذّت تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوس جور
    ــــــــ سب کے نئے طور!

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب،
    میرے بھی ہیں کچھ خواب!
    ہر خواب کی سوگند!
    ہر چند کہ وہ خواب ہیں سر بستہ و روبند
    سینے میں‌چھپائے ہوئے گویائی دو شیزہء لب خند
    ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند
    عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیء شوق کے مانند
    (اے لمحہ خورسند!)

    اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
    وہ خواب ہیں آزادی کامل کے نئے خواب
    ہر سعئی جگر دوز کے حاصل نے نئے خواب
    آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
    اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
    اے عشق ازل گیر و ابد تاب
    میرے بھی ہیں کچھ خواب
    میرے بھی ہیں کچھ خواب!
     
  11. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    آپ" کے چہرے

    "آپ" کے چہرے

    "آپ" ہم جس کے قصیدہ خواں ہیں
    وصل البتّہ و لیکن کے سوا
    اور نہیں
    "آپ" ہم مرثیہ خواں ہیں جس کے
    ہجر البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں
    "آپ" دو چہروں کی ناگن کے سوا اور نہیں!

    روز "البتّہ" مرے ساتھ
    پرندوں کی سحر جاگتے ارمانوں
    کے بستر سے اٹھا
    سیر کی، غسل کیا
    اور مرے ساتھ ہی صبحانہ کیا،
    بے سرے گیت بھی گائے ــــــــ

    یونہی "لیکن" بھی مرے ساتھ
    کسی بوڑھے جہاں گرد کے مانند
    لڑھکتا رہا، لنگڑاتا رہا ــــــ
    شام ہوتے ہی وہ ان خوف کے پتلوں کی طرح
    جو زمانے سے، کسی شہر میں مدفون چلے آتے ہوں
    ناگہاں نیندوں کی الماری میں پھر ڈھیر ہوئے
    ان کے خرّانٹوں نے شب بھی مجھے سونے نہ دیا ـــ
    "آپ" البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں

    بارہا ایک ہی وہ چہرہ ــــ وہ "البتّہ"
    جسے جانتے ہو
    دن کی بیہودہ تگ و تاز میں،
    یا شور کے ہنگام ِمن و توئی میں
    نوحہ گر ہوتا ہے "لیکن" پہ کہ موجود نہیں

    بارہا ایک ہی وہ چہرہ ـــــ وہ "لیکن"
    جسے پہچانتے ہو
    اپنے سنّاٹے کے بالینوں پر
    اپنی تنہائی کے آئینوں میں
    آپ ہی جھولتا ہے
    قہقہے چیختا ہے
    اپنے البتہ کی حالت پہ کہ موجود نہیں ــــــ

    آؤ، البتّہ و لیکن کو
    کہیں ڈھونڈ نکالیں پھر سے
    ان کے بستر پہ نئے پھول بچھائیں
    جب وہ وصل پہ آمادہ نظر آئیں
    تو (ہم آپ) کسی گوشے میں چپ چاپ سرک جائیں!
     
  12. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

    چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے - از ن م راشد


    چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے
    کئ لذّتوں کا ستم لئے
    جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
    مرا ذہن ہے وہ صنم لیے
    وہی ریگ زار ہے سامنے
    وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئینے
    کسی دست غیب سے ٹوٹ کر
    رہ تار جاں میں بکھر گئے!
    ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے
    وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں
    ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے
    چلا آرہا ہوں سمندروں کا نمک لیے

    یہ برہنگی عظیم تیری دکھاؤں میں
    (جو گدا گری کا بہانہ ہے)
    کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں
    میں سنوں، فسانہ سمندروں کا سناؤں میں
    (کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے)

    یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑہیں دست و پا، نہ کھلے زباں
    نہ خیال ہی میں رہے تواں
    تو وہ ریگ زار کہ جیسے رہزن پیر ہو
    جسے تاب راہزنی نہ ہو
    کہ مثال طائر نیم جاں
    جسے یاد بال و پری نہ ہو
    کسی راہرو سے امّید رحم و کرم لیے
    میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے
    چلا آرہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے
    ھے ابھی انہی کی طرف مرا در ِدل کھلا
    کہ نسیم خندہ کو رہ ملے
    مری تیرگی کو نگہ ملے
    وہ سرور و سوز صدف ابھی مجھے یاد ہے
    ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے
    مرے پاؤں چھو کے نکل گئ کوئی موج ساز بکف ابھی
    وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئ
    وہ جزیرے جن کے افق ہجوم سحر سے دید بہار تھے
    وہ پرندے اپنی طلب میں جو سر کار تھے
    وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں
    ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں
    ابھی ذہن ہے وہ صنم لیے
    جو سمندروں کے فسوں میں ہے
    چلا آ رھا ہوں سمندروں کے جمال سے
    صدف و کنار کا غم لیے
     
  13. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    ابو لہب کی شادی

    ابو لہب کی شادی - از ن م راشد

    شب زفافِ ابو لہب تھی، مگر خدایا وہ کیسی شب تھی،
    ابو لہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن، گلے میں
    سانپوں کے ہار لائی، نہ اس کو مشاطّگی سے مطلب
    نہ مانگ غازہ، نہ رنگ روغن، گلے میں سانپوں
    کے ہار اس کے، تو سر پہ ایندھن!
    خدایا کیسی شب زفافِ ابو لہب تھی!

    یہ دیکھتے ھی ہجوم بپھرا، بھڑک اٹھے یوں غضب
    کے شعلے، کہ جیسے ننگے بدن پہ جابر کے تازیانے!
    جوان لڑکوں کی تالیاں تھیں، نہ صحن میں شوخ
    لڑکیوں کے تھرکتے پاؤں تھرک رھے تھے،
    نہ نغمہ باقی نہ شادیانے !

    ابو لہب نے یہ رنگ دیکھا، لگام تھامی، لگائی
    مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!

    ابو لہب کی خبر جو آئی، تو سالہا سال کا زمانہ
    غبار بن کر بکھر چکا تھا!

    ابو لہب اجنبی زمینوں کے لعل و گوہر سمیٹ کر
    پھر وطن کو لوٹا، ہزار طرّار و تیز آنکھیں، پرانے
    غرفوں سے جھانک اٹھیں، ہجوم، پیر و جواں کا
    گہرا ہجوم، اپنے گھروں سے نکلا، ابو لہب کے جلوس
    کو دیکھنے کو لپکا!

    ابولہب!" اک شبِ زفافِ ابو لہب کا جلا"
    پھپھولا، خیال کی ریت کا بگولا، وہ عشق برباد
    کا ہیولا، ہجوم میں سے پکار اٹھی: "ابو لہب!
    تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن
    گلے میں سانپوں کے ہار لائی"

    ابو لہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی
    مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!
     
  14. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    اظہار اور رسائی

    اظہار اور رسائی -- از ن م راشد

    مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
    بات کہنے کے بہانے ہیں بہت

    آدمی کس سے مگر بات کرئے

    بات جب حیلہء تقریب ملاقات نہ ہو
    اور رسائی کہ ھمیشہ سے ھے کوتاہ کمند
    بات کی غایت غایات نہ ہو!

    ایک ذرّہ کف خاکستر کا
    شرر جستہ کے مانند کبھی
    کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
    اپنے سینے کے دہکتے ھوئے تنّور کی لو سے مجبور
    ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ھے خود سے مہجور،
    کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
    آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
    اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
    وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو!

    اسے اک ذرّے کی تابانی سے
    کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
    کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
    اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
    شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
    اسے اک ذرّہ لا فانی سے
    خشت بے مایہ کو ملتا ھے دوام
    بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
    آدمی کس سے مگر بات کرئے

    مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
    آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
    اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
    اور پھر کس کے لیے بات کروں
     
  15. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    حَسَن کوزہ گر- 1

    حَسَن کوزہ گر- 1 -- از ن م راشد

    جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
    یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
    تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
    کی دکّان پر میں نے دیکھا
    تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
    تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
    جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
    یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
    کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
    پلٹ کر نہ دیکھا ــــــــــ
    وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
    گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
    وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
    "حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
    وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
    خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!"
    جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
    کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
    تغاروں میں مٹی
    کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
    سنگ بستہ پڑی تھی
    صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
    مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
    شکستہ پڑے تھے

    میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک بر سر برہنہ
    سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
    کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
    گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
    جہاں زاد، نو سال پہلے
    تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
    کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
    تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
    میں دیکھی ھے وہ تابناکی
    کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
    رہگزر بن گئے تھے
    جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
    وہ رود دجلہ کا ساحل
    وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
    کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
    ایک ہی رات وہ کہربا تھی
    کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
    اس کی جاں اس کا پیکر
    مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
    حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!
    جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
    وہ سوختہ بخت آکر
    مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو
    تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ــــــــــ
    (وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
    وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
    حسن کوزہ گر ہوش میں آ"
    حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
    یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
    حسن، اے محبّت کے مارے
    محبّت امیروں کی بازی،
    "حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر
    مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
    کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
    وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
    مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
    خرابوں کا مجذوب تھا جن
    میں کوئی صدا کوئی جنبش
    کسی مرغ پرّاں کا سایہ
    کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

    جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
    یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
    ترے در کے آگے کھڑا ہوں
    سرد مو پریشاں
    دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
    مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
    زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
    اور فانوس و گلداں
    کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
    میں انساں ہوں لیکن
    یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
    حسن کوزہ گر آج اک تودہ ِخاک ہے جس
    میں نم کا اثر تک نہیں ہے
    جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
    کی دکّان پر تیری آنکھیں
    پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
    ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
    سے اٹھی ہے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
    یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!

    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
    تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
    وہی کوزہ گر جس کے کوزے
    تھے ھر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
    تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

    تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
    تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
    گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
    معیشت کے اظہار ِ فن کے سہاروں کی جانب
    کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
    سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
    دلوں کے خرابے ھوں روشن!
     
  16. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    حَسَن کوزہ گر (٢)

    حَسَن کوزہ گر (٢)

    اے جہاں زاد،
    نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
    میں کہاں تک بھولوں؟
    زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
    کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا _____

    تجھے حیرت نہ ہوئی!
    کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
    اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
    تجھے حیرت نہ ہوئی!

    اے جہاں زاد،
    میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
    اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
    تو مَیں سوچتا ہوں _____
    سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
    سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
    تو مرے سامنے آئینہ رہی،
    جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
    اپنی ہی صورت کے سوا
    اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
    لکھ رہا ہوں تجھے خط
    اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
    اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
    اب ایک ہی صورت کے سوا!
    لکھ رہا ہوں تجھے خط
    اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
    لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
    خط کیوں نہ لکھوں؟

    اے جہاں زاد،
    نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
    مجھے پھر لائے گی؟
    وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
    وقت اِک ایسا پتنگا ہے
    جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
    پیمانوں پہ شیشوں پہ،
    مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
    سدا رینگتا ہے

    رینگتے وقت کے مانند کبھی
    لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!

    اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
    تو میں سوچتا ہوں:
    شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی___
    جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
    یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
    میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
    بس ایک نشانی ہے یہی
    ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
    مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
    آکے مجھے دیکھتی ہے
    دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
    میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ____
    کھیل اِک سادہ محبّت کا
    شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
    کھیلتے ہیں
    کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
    اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
    دل کے جینے کے بہانے کے سوا ___
    حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
    عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
    اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
    دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ____
    (دردِ محرومی کی،
    تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

    میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
    جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
    اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں ____
    در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
    میرے افلاس کی، تنہائی کی،
    یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
    پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
    یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
    ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
    کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
    تو مَیں جی اٹھتا ہوں
    تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
    ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
    کوئی پنکھا بھی نہیں،
    تجھے جس عشق کی خو ہے
    مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

    تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
    کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
    اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
    اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
    تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
    میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
    عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
    اے جہاں زاد،
    ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
    اس کا نہیں کوئی جواب
    یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!

    اے جہاں زاد
    مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
    مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
    کے کنارے گونجی
    تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
    صدیوں کا کنارا نکلا
    یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
    یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
    بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
    یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
    ہر اِک فن کے پرستار کا
    آئینہ ہے
     
  17. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    حَسَن کوزہ گر (٣)

    حَسَن کوزہ گر (٣)

    جہاں زاد،
    وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
    جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
    محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
    تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
    ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
    تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
    کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے

    ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
    تیَرتے رہے
    تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
    جاں کی تشنگی تجھے!“
    (لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
    کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
    سے شاد کام ہو گیا!)
    مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
    مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا ___
    نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
    کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
    یہی وہ اعتبار تھا
    کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___
    مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
    اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو او مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں
    ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
    اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
    کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
    ایسی الجھنیں ہیں
    جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
    جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
    فریب اپنے آپ سے!
    کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
    جواب جس کا ہم نہیں ____

    (لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
    تیرے لب پہ تھا ____
    وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
    لبوں کو نوچتا رہا

    جو مَیں کبھی نہ کر سکا
    نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو
    رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
    جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
    لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
    مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
    وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
    نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
    جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

    جہاں زاد،
    ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
    یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
    ہمیشہ گھومتے رہے
    کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
    مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____
    مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
    جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
    نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
    گھومتے ہوئے
    سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
    برس پڑی
    وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
    مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
    مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
    کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
    تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
    نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___
    یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
    کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
    تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____
    (مَیں ایک غریب کوزہ گر
    یہ انتہائے معرفت
    یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
    مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)

    جہاں زاد،
    انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
    جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟

    اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
    نہ گمرہی کی رات کا
    (شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
    وہ خود گناہ بن گئیں!)
    حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
    نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
    اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
    کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
    تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
    تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
    کے سست قافلے

    مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
    مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
    بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
    مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
    غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
    ___مرے وجود سے بروں____
    تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
    میرے اپنے آپ سے فراق میں،
    وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
    وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
    وہ روئتِ ازل بنے!
     
  18. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    شاعر ِ درماندہ

    شاعر ِ درماندہ

    زندگی تیرے لیے بستر ِ سنجاب و سمور
    اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
    عافیت کوشئ آبا کے طفیل،
    میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
    خستہء فکر ِ معاش!
    پارہء نان ِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
    میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں ارباب وطن
    یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
    تجھے اک شاعر درماندہ کی امّید نہ تھی
    مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
    تو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہن رسا
    اور مرے علم و ہنر
    بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
    مرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
    کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
    تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
    (اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے !)

    اے مری شمع شبستان ِ وفا،
    بھول جا میرے لیے
    زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
    تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
    اور اگر ہے، تو سرا پردہء نسیان میں ہے
    تو "مسرّت" ہے مری، تو مری "بیداری" ہے
    مجھے آغوش میں لے
    دو "انا" مل کے جہاں سوز بنیں
    اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
    آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!
     
  19. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    بیکراں رات کے سنّاٹے میں

    بیکراں رات کے سنّاٹے میں

    تیرے بستر پہ مری جان کبھی
    بیکراں رات کے سنّاٹے میں
    جذبہء شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش
    اور لذّت کی گراں باری سے
    ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی
    اور کہیں اس کے قریب
    نیند، آغاز ِ زمستاں کے پرندے کی طرح
    خوف دل میں کسی موہوم شکاری کے لیے
    اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے
    بیکراں رات کے سنّاٹے میں!

    تیرے بستر پہ مری جان کبھی
    آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں
    ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں!

    ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے
    تو مری جان نہیں
    بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے
    اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں مَیں
    ایک مدّت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی
    کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبک بار کرے!
    بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر
    اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں مَیں!
    یہ مرے دل میں خیال آتا ہے
    تیرے بستر پہ مری جان کبھی
    بیکراں رات کے سنّاٹے میں!
     
  20. سخنور

    سخنور -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 11, 2007
    پیغامات:
    133
    میں اسے واقف الفت نہ کروں - از ن م راشد

    میں اسے واقف الفت نہ کروں - از ن م راشد

    سوچتا ہوں کہ بہت سادہ معصوم ہے وہ
    میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
    روح کو اس کی اسیر ِغم ِالفت نہ کروں
    اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں

    سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
    واقفِ درد نہیں، خوگر ِآلام نہیں
    سحر عیش میں اس کی اثر ِشام نہیں
    زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

    سوچتا ہوں کہ محبّت ہے جوانی کی خزاں
    اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
    نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
    سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

    سوچتا ھوں کہ غم ِدل نہ سناؤں اس کو
    سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کرو
    خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
    اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

    سوچتا ھوں کہ جلا دے گی محبّت اس کو
    وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
    خود تو وہ آتش جذبات میں جل جائے گی
    اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
    سوچتا ھوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
    میں اسے واقف الفت نہ کروں ______
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں