دور اول ميں قرآن کے بارے ميں شيعہ کا عقيدہ۔۔۔۔احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ

اہل الحدیث نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏مارچ 20, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    دور اول ميں قرآن کے بارے ميں شيعہ کا عقيدہ

    ہر وہ شخص جو شيعہ کا قرآن کے بارے ميں عقيدہ جاننا چاہتا ہے تو اس کے ليے ضروري ہے کہ وہ ان کي بنيادي اور اساسي کتابوں اور ان کے حديث اور تفسير ميں اصلي مراجع کي طرف رجوع کرے تاکہ وہ فيصلہ کرنے ميں منصف اور نتيجہ اخذ کرنے ميں عادل ہو۔ اس ليے کہ ان کے عقائد کا دارومدار اور دوسروں کے ساتھ اختلافات ميں ان پر ہي اعتماد ہے اور ان کا تمسک اور عمل انہيں روايات پر ہے جو انہوں نے اپنے اعتقاد کے مطابق ائمہ معصومين سے جو حضرت علي کي اولاد سے ہيں اپنے خاص طرق اور مخصوص اسناد سے روايت کي ہيں۔ جن سے وہ مسلمانوں کے دوسروے فرقوں سے جدا ہوتے ہيں۔ جيسا کہ ہمارے ہمعصر ايک شيعہ نے ہمارے خلاف رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

    ہمارا دين ہر قسم کے عيب اور نقص سے پاک ہے اس ليے کہ اس کے اصول اور فروع اہل بيت النبي سے حاصل کردہ ہيں اور وہ زيادہ جانتے ہيں جو حضرت نبي صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہيں اور وہ بخوبي جانتے ہيں جو قرآن ميں ہے جو ان کے نانا پر نازل ہوا ہے۔ وہ علم کے خزانے اور حکمت کے دروازے اور اس کي وحي کے مترجم ہيں۔ ان ميں سب سے پہلے علي بن ابي طالب ہيں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائي، آپ کے داماد، اور وصي اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اسرار وبھيدوں کے جاننے والے ہيں۔ اور يہ وہي ہيں جن کے علم کي طرف تمام صحابہ محتاج تھے جن ميں خلفاء بھي تھے اور وہ صحابہ ميں سے کسي ايک کے محتاج نہيں تھے۔ يہ وہي ہيں جن کے بارہ ميں شوقي نے کہا ہے:

    نفس النبي المصطفي وفرعہ

    ودينہ عند اللقا وشرعہ



    الـمـران يـاخـــذان عـنـہ

    والقمران نسختان منہ

    اس دين ميں کوئي بھلائي نہيں ہے جس کي اسناد اس بيت (گھر) کے ليے نہ ہو جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجيد کے ساتھ ملايا ہ ياور ان دونوں (قرآن واہل بيت) کو انسانوں کے ليے ھدايت کا سبب اور ذريعہ قرار ديا ہے جب تک لوگ ان پر تمسک کريں کے اور يہ دونوں ہي ايک دوسرے سے جدا نہ ہونگے (کتاب الشيعہ والسنہ في الميزان ص98 و99 طبع دار الزھراء بيروت)۔

    (28) نيز وہ کہتا ہے: اہل بيت ہمارے دين کا منبع اور ماخذ ہيں اور ہمارے احکام کے مرشد اور راہنما ہيں (ايضاًص114)۔

    ايک دوسرا شيعہ کہتا ہے: شيعوں کا بجز اس کے کوئي گناہ نہيں کہ وہ عقدۃ النبيﷺ سے تعلق اور نسبت رکھتے ہيں اور ان کے احکام اور سيرت پر تمسک اور عمل کرتے ہيں (صوت الحق ودعوۃ الصدق للطف اللہ الصافي ص38 طبع بيروت)۔

    يہ اور اس جيسے بہت فخر کرتے ہيں تمام شيعوں کي کتابيںاس جيسے تفاخر سے بھري پڑي ہيں۔ ليکن ہم نے صرف دو شخصوں کي عبارتوں پر اکتفاء کيا ہے جو ہمارے خلاف رد کے درپے ہوئے ہيں۔

    منصف مزاج محقق کے ليے ضروري ہے کہ وہ شيعوں کي طرف کوئي ايسي بات منسوب نہ کرے جو ان کے ائمہ سے ثابت نہ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ايسي بات تب ہي ثابت ہو سکتي ہے جو ان کي ايسي کتابوں ميں پائي جائے جو ان کے ائمہ کي روايات اور احاديث کے جمع کے ليے مخصوص ہيں يہ کتابيں يا تو ديث کي ہيں يا تفسير کي۔ خصوصاً وہ پراني کتب جن ميں ان روايات کي اسناد ہيں يا پھر وہ ان کے ائمہ معصومين کي صحت کے موافق ہيں۔

    ہم نے اس باب ميں يہ التزام کيا ہے کہ اس ميں کوئي ايسي چيز داخل نہ کريں جو اثنا عشر کے ائمہ سے منقول نہ ہو اور وہ بھي خود شيعہ حضرات کي کتب سے جو ان کے ہاں قابل اعتماد ہيں۔ تمام شيعہ جن ميں کوئي ايک بھي مستثنيٰ نہيں ہے اپني ابتداء سے ليکر اپنے تمام ائمہ کے زمانوں ميں ہي عقيدہ رکھتے چلے آ رہے ہيں کہ قرآن ميں تحريف اور تغير کيا گيا ہے اور اس ميں بہت سي زيادتي اور کمي کي گئي ہے ہم اس موقف کے ثبوت ميں کليني کي کتاب الکافي سے نقل کرتے ہيں جس کي تعريف وتوصيف ميں يہ کہا گيا ہے کہ:

    اصول کي چاروں کتابوں ميں سے سب سے جليل القدر کتاب ہے آل رسول سے منقول کے بارہ ميں اس کي مثل کوئي کتاب نہيں لکھي گئي۔ جس کے مولف ثقۃ الاسلام محمد بن يعقوب بن اسحاق کليني رازي المتوفي 328ھ ہيں (الذريعہ الي تصانيف الشيعہ لآغا بزرک الطہراني ج17 ص245)۔

    (29) يہ کتاب اسلامي کتب ميں جليل القدر ہے اور اماميہ کي کتابوں ميں بڑي عظيم کتاب ہے۔ جس کي مثل اماميوں کے ليے کوئي کتاب عمل ميں نہيں آتي۔ موليٰ محمد امين استر آبادي نے اپنے فوائد ميں تحرير کيا ہے کہ ہم نے اپنے مشائخ اور علماء سے سنا ہے کہ اسلام ميں کوئي ايسي کتاب تصنيف نہيں ہوئي جو اسکے ہموزن يا اس کے قريب ہي ہو (الکني والالقاب للعباس القمي ص98ج3) اس کي مثل مستتدرک الوسائل ص532ج3 ميں بھي ہے کافي تمام کتابوں سے بزرگي اور اعتماد والي اور اصولوں پر مشتمل ہونے ميں سب سے زيادہ جامع ہے اور عيوب اور فضوليات سے خالي ہے (الوافي ص6ج1)۔

    خو انساري نے ذکر کيا ہے کہ محدث نيشاپوري نے الکافي ميں فرمايا ہے کہ: ثقۃ الاسلام، قدوۃ الاعلام، البدر التمام، سفراء امام کے حضور جامع السنن والاثار، الشيخ ابوجعفر محمد بن يعقوب الکليني الرازي محي طريقہ الشيخ ابوجعفر محمد بن يعقوب الکليني الرازي ثقۃ الاسلام قدوۃ الاعلام تھے امام کے سفراء کے حضور جامع السنن والاثار تھے جنہوں نے تيسري صدي ہجري کے آغاز ميں اہل بيت کے طريقہ کو زندہ کيا جنہوں نے بيس سال کي مدت ميں جامع (الکافي) تاليف کي آخرت اور اولي ميں غيوبت کبري کے حادثہ سے پہلے وفات پائي، ان کي کتاب مدح ميں مبالغہ سے مستغني ہے اس ليے کہ وہ امام کے نائب کے محضر ميں تھي۔ ان سے کسي شيعہ نے الکافي کي تاليف کے بارہ ميں سوال کيا اس ليے کہ وہ فرماتے ہيں انہوں نے يہ کتاب اپنے امام پر پيش کي تو انہوں نے فرمايا يہ ہمارے شيعوں کے ليے کافي ہے (روضات الجنات ج6 ص116)۔

    حسين علي المقدم الکافي کے بارہ ميں کہتے ہيں: علماء کا اعتماد ہے کہ (کليني) نے اس کتاب کو امام قائم (بارھويں امام صلوات اللہ جو ان کے عقيدہ ميں غائب ہو چکے ہيں) پر پيش کيا تو انہوں نے اس کو بہت اچھي قرار ديا اور فرمايا: يہ ہمارے شيعوں کے ليے کافي ہے (مقدمہ الکافي ص25)۔

    نيز کليني نے اپني کتاب ميں علماء اہل البيت اور ان کے رجال اور محدثين ميں سے لاتعداد سے روايات رروايت کي ہيں۔ اس کي کتاب صادقين عليہم السلام کے آثار کا خلاص اور ان کي قائم سنتوں کا مخزن اور منبع ہے (ايضاً)

    (30) ہم نے اس کتاب کے بارہ ميں جو ذکر کيا وہ اس کي کثير مدح ميں سے بہت کم ہے۔ جو انہوں نے کليني کے بارہ ميں کہا ہے اس کا کچھ خاکہ يہ ہے نجاشي کہتا ہے: اسے شہر ميں اپنے وقت ميں ہمارے اصحاب کے شيخ اور ان کے قابل التفات تھے اور حديث ميں تمام لوگوں سے ثقہ اور ثبت تھے (رجال النجاشي)۔

    ابن طاووس کہتا ہے: کليني شيخ ہے جن کي ثقاہت اور امامت پر اتفاق ہے اپني روايت کو انتہا درجہ پہنچانے والا ہے۔ اور قمي کہتا ہے: اماميہ مذہب کے پہلي صدي کے مجدد محمد بن علي جو ان کے پانچويں امام ميں تھے اور دوسري صدي ہجري کے مجدد علي بن موسي الرضا جو ان کے آٹھويں امام ميں تھے۔ اور تيسري صدي ہجري کے مجدد ابو جعفر محمد بن يعقوب الکليني تھے (الکني والالقاب ص99ج3 وروضات الجنات ص111ج6)۔

    خو انساري کہتا ہے: في الجملہ کليني کا مقام ومرتبہ اس سے بہت بلند ہے کہ وہ فريقين کي آنکھوں سے اوجھل اور مخفي رہ جانے يا اہل بصارت کے نزديک اس پر اجمال کا پردہ پڑ جانے يا جدائي کے دن اس کي چمک اور دمک کے نشان کي نفي کي جائے۔ وہ حقيقت ميں اسلام کا زمين اور طريقت ميں بڑے علماء کي دليل۔ اور شريعت ميں بيش رو جليل القدر ہے۔ کسي ايک کو اس کي ثقاہت اور ائمہ کے نزديک ان کے مقام ومرتبہ ميں کوئي کلام نہيں ہے۔ اس کے خصوصي مرتبہ مزيد فضل اور ثقاہت پر ہي دليل کافي ہے کہ طائفہ شيعہ کا اتفاق ہے کہ يہ تينوں محمدوں سے جو کتب اربعہ کے مولف اور شرعيت متبعہ (مزہذ شيعہ) کے رئيس ہيں سے زيادہ ثقہ ہے (روضات الجنات للخو انساري ص112ج6)۔

    يہ درجہ ہے کتاب الکافي کا اور يہ مرتبہ ہے (اس کے مولف) کليني کا يہي کليني اسي کتاب الکافي ميں روايت کرتا ہے: علي بن حکم نے ہشام بن صالح سے اس نے ابي عبداللہ عليہ السلام سے روايت کي کہ انہوں نے فرمايا: وہ قرآن جو جبريل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ليکر آيا اس کي سترہ (17) ہزار آيات تھيں (الکافي ص634ج2 کتاب فضل القرآن)۔

    معروف يہ ہے کہ قرآن کريم کي چھ ہزار دوسو تريسٹھ آيات ہيں۔ جس کا مطلب يہ ہے کہ قرآن کا دو تہائي حصہ ضائع ہو گيا ہے اور جو باقي ہے وہ صرف ايک تہائي ہے جس کي وضاحت خود جعفر باقر نے کر دي ہے جيسا کہ کليني نے اپني کتاب الکافي ميں باب ذکر الصحيفہ والجفر والجامعۃ ومصحف فاطمۃ عليھا السلام کے تحت کيا ہے۔ چنانچہ کليني اپنے بہت سے اصحاب سے روايت کرتا ہے اور وہ احمد بن محمد سے اور وہ عبد اللہ الحجال سے اور وہ احمد بن عمر المجلسي سے اور وہ ابو بصير سے روايت کرتا ہے کہ ميں ابو عبداللہ عليہ السلام کے پاس گيا اور عرض کيا: ميں آپ پر فدا ہوں، آپ سے ايک مسئلہ دريافت کرنا چاہتا ہوں۔ ابو عبداللہ نے فرمايا: کيا يہاں کوئي اور بھي ہے جو ميري بات سن رہا ہے؟ راوي کہتا ہے: انہوں نے پردہاٹھايا جو ان کے اور دوسرے گھر کے درميان لٹک رہا تھا اور اس ميں ديکھا (کہ کوئي وہاں موجود تو نہيں) پھر فرمايا: ابو محمد! جس کو اپنے ليے مناسب سمجھتے ہو پوچھو۔ راوي کہتا ہے ميں نے کہا ميں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ آپ کے شيعہ آپس ميں باتيں کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علي کو علم کا ايک دروازہ سکھايا تھا جس سے ان کے ليے ھزار دروازے کھلتے تھے؟ انہوں نے فرمايا: ابو محمد! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علي کو علم کا ايک ھزار دروازہ سکھايا جن ميں سے ہر ايک دروازے سے ہزار دروازہ کھلتا تھا۔ ميں نے کہاں اللہ کي قسم! يہ تو بہت بڑا علم ہے۔ انہوں نے ايک لمحہ زمين کو کريدا، اور پھر فرمايا: بلاشبہ يہ علم ہے ليکن يہ اس قدر نہيں جتنا تو نے خيال کيا ہے۔ پھر انہوں نے فرمايا: ابو محمد! ہمارے پاس جامعہ ہے۔ لوگوں کو کيا علم کہ جامعہ کيا ہے۔ ميں نے عرض کيا ميں آپ پر فدا ہوں جامعہ کيا ہے؟ انہوں نے فرمايا: وہ ايک صحيفہ ہے جس کي لمبائي رسول اللہ کے ستر ہاتھ ہے۔ جس کو علي نے اپنے ہاتھ کے ساتھ لکھا ہے اس ميں حلال اور حرام اور ہرچيز جس کے لوگ محتاج ہيں کي تفصيل موجود ہے۔ چہرے کي خراش کي ديت کي تفصيل بھي موجود ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر اپنا ہاتھ مارا اور فرمايا: ابو محمد! کيا تو مجھے اجازت ديتا ہے؟ ميں نے کہا ميں آپ پر قربان ہوں۔ ميں تو آپ کے ليے ہي ہوں آپ جو چاہيں کريں۔ پھر انہوںنے مجھے اپنے ہاتھ سے چوک لگائي اور فرمايا: اس کي ديت بھي (جامعہ ميں) ہے۔ گويا کہ آپ غصے ميں ہيں۔ ميں نے کہا اللہ کي قسم! يہ علم ہے۔ فرمايا: بلاشبہ يہ علم ہے ليکن يہ اس قدر نہيں جتنا کہ تو نے سمجھا ہے۔

    پھر ايک لمحہ خاموش رہنے کے بعد فرمايا: ہمارے پاس جفر ہے لوگوں کو کيا معلوم کہ جفر کيا ہے ميں نے عرض کيا جفر کيا ہے! فرمايا: چمڑے کا ايک صندوق ہے جس ميں نبيوں، وصيوں اور بني اسرائيل کے سابقہ علماء کا علم ہے ميں نے کہا يہ تو بڑا علم ہے۔ فرمايا: بلا شبہ علم ہے ليکن اس قدر نہيں جتنا کہ تو نے خيال کيا ہے پھر ايک گھڑي خاموش رہنے کے بعد فرمايا: ہمارے پاس حضرت فاطمہ کا مصحف ہے لوگوں کو کيا معلوم کہ مصحف فاطمہ کيا ہے؟ ميں نے عرض کيا مصحف فاطمہ کيا ہے؟ فرمايا: وہ ايسا مصحف ہے جس ميں تمہارے قرآن کي مثل تين قرآن ہيں۔ اللہ کي قسم! اس ميں تمہارے قرآن کا ايک بھي حرف نہيں ہے۔ ميں نے عرض کيا يہ تو بڑا علم ہے فرمايا: ہاں يہ علم ہے ليکن يہ اتنا زيادہ نہيں جتنا کہ تو نے خيال کيا ہے۔

    پھر تھوڑي دير خاموش رہنے کے بعد فرمايا: ہمارے پاس اس کا علم بھي ہے جو گزر چکا ہے اور اس کا بھي علم ہے جو کچھ قيامت تک ہونے والا ہے۔ ميں نے کہا ميں آپ پر فدا ہوں اللہ کي قسم يہ تو بڑا علم ہے۔ فرمايا: بلاشبہ علم ہے ليکن يہ اتنا زيادہ نہيں جتنا کہ تو نے خيال کيا۔ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر فدا ہوں پھر علم کيا چيز ہے؟ فرمايا: جو کچھ رات اور دن ميں ايک امر کے بعد دوسرا امر اور ايک شئي کے بعد دوسري شئي قيامت تک پيدا ہوتي رہے گي۔ (الاصول من الکافي ص239 و240ج1)۔

    قرآن سے کونسي قسم حذف کي گئي:کليني اس کو بھي اپنے معصوم امام محمد باقر سے جو ان کا پانچواں امام ہے سے بيان کرتا ہے کہ:

    ابي علي العشري نے محمد بن عبدالجبار سے اس نے صفوان سے اس نے اسحاق بن عمار سے اس نے ابوبصير سے روايت کي کہ ابوجعفر عليہ السلام نے فرمايا:۔

    قرآن چار حصوں ميں اترا ايک حصہ ہمارے بارہ ميں اور ايک حصہ ہمارے دشمنوں کے بارہ ميں اور ايک حصہ سنن اور امثال کے بارہ ميں اور ايک حصہ فرائض اور احکام کے بارہ ميں (الکافي من الاصول کتاب فضل القرآن ص628ج2)۔

    کليني نے اس جيسي ايک روايت حضرت علي رضي اللہ عنہ سے بھي ذکر کي ہے کہ ہمارے بہت سے اصحاب نے سھل بن زياد اور علي بن ابراہيم سے اس نے اپنے باپ سے انہوں نے ابن محبوب سے اس نے ابو حمزہ سے اس نے ابو يحييٰ سے اس نے اصبغ بن نباتہ سے وہ کہتا ہے ميں نے امير المؤمنين عليہ السلام سے سنا وہ فرماتے تھے:۔

    قرآن تين حصوں ميں نازل ہوا۔ ايک تہائي ہمارے بارہ ميں اور ہمارے دشمنوں کے بارہ ميں اور ايک تہائي سنن اور امثال کے بارہ ميں اور ايک تہائي فرائض اور احکام کے بارہ ميں (ايضاً ص622ج2)۔

    جو قرآن سے حذف ہوا ہے کليني نے اس کو الکافي ميں واضح کيا ہے۔ اس نے حسين بن محمد اور اس نے معلي بن محمد سے اس نے جعفر بن محمد بن عبيد اللہ سے اس نے محمد بن عيسيٰ قمي سے اس نے محمد بن سليمان سے اس نے عبداللہ بن سنان سے اس نے ابو عبداللہ عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ انہوں نے فرمايا: آيت {ولقد عہدنا الي آدم من قبل} در اصل اس طرح تھي ’’ولقد عہدنا الي آدم من قبل کلمات في محمد وعلي وفاطمۃ والحسن والحسين والائمۃ عليہم السلام من ذريتھم فنسي‘‘ اور فرمايا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر يہ آيت اسي طرح ہي نازل ہوئي تھي (ايضاً ص627ج2)۔

    نيز علي بن محمد نے اپنے بعض اصحاب سے انہوں نے احمد بن محمد بن ابي نصر سے روايت کي کہ انہوں نے کہا: ابو الحسن عليہ السلام نے مجھے مصحف ديا اور فرمايا: اس مصحف کو (کھول کر) نہ ديکھنا، ليکن ميں نے اسے کھول کر پڑھا تو اس ميں {لم يکن الذين کفروا} آيت تھي جس ميں ميں نے قريش کے ستر آدميوں کے نام اور ان کے آباء کے نام پائے۔ تو ابو الحسن نے فرمايا: اس مصحف کو ميري طرف بھيج دو (ايضاً ص16ج1)۔

    ماخوذ از الشیعہ والقرآن از علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ تعالی بحوالہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاک اللہ خیرا۔۔۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جزاک اللہ خیرا اہل الحدیث بھائی ۔
     
  4. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جزاك الله خيرا
    پائن ادھر میری پوسٹ تھی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں