ایک حیران کن سوال : مسلمان ممالک کا دوہرا پیمانہ

ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏جون 1, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    ایک حیران کن سوال : مسلمان ممالک کا دوہرا پیمانہ

    Double Standards of Muslim Countries) An Amazing Question : )

    اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے ہر ادنی واقف شخص یہ جانتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر مئی 1948 ع میں انگلینڈ,فرانس اور دیگر عالمی قوتوں کی مدد سے جابرانہ و ظالمانہ قبضہ کیا۔انگلینڈ اور فرانس ہی جنگ عظیم دوم ( ستمبر 1939- ستمبر 1945ع )سے پہلے اس دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھی اور ان دونوں خصوصا انگلینڈ ہی کے تعاون اور مدد سے اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ و ظالمانہ قبضہ کیا تھا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد دونئے عالمی سپر پاورس امریکہ اور روس کا ظہورہوا۔اور ان دونوں ملکوں خصوصا امریکہنے شروع سےہی اسرائیل کا عالمی اور اسلامی برادری کا لحاظ کیے بغیر کھل کر مکمل ساتھدیا ۔ اور اس کا ہر طرح سے سیاسی ,سماجی, اقتصادی, مادی, فوجی, جنگی اور معنوی تعاون کیا اور اب بھی کررہا ہے جو ہر کوئی جانتا ہے اور یہ کوئی مخفی چیز نہیں ہے۔اوراگر یہ کہا جائے کہ آج کے دور میں امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا وجود برقرار ہے تو یہ بالکل صحیح اور درست ہے ۔

    اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے تقریبا تمام مسلمان ممالک- چند کو چھوڑ کر - اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کا سیاسی , سفارتی, اقتصادی, سماجی, فوجی, تعلق نہ قائم کرنے پر مصر ہیں ۔ اور وہ بلا شبہ حق بجانب ہیں کیونکہ حقیقت میں اسرائیل نے ایک مسلمان ملک پر بنا کسی وجہ معقول کے ناحق زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ روزآنہ وہاں کے مسلمانوں کا خون بہا رہاہے۔ بنا کسی تفریق کے عورتو ں اور بچوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تار تار کرہا ہے۔گھروں, کھیتوں اور زمینوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے ۔غرضیکہ ہر طرح کا ظلم و ستم وہاں کے باشندوں پر ڈھا رہا ہےاور کسی بھی طرح کی مصالحت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر مسلمان ممالک کا اسرائیل کے تئیں یہ موقف ہے تو بلاشبہ یہ ایک بہت ہی اچھا, شاندار اور قابل تحسین اسلامی موقف ہے۔ اس کی تعریف کی جانی چائیے۔لیکن یہ تو سکہ کا صرف ایک ہی رخ ہے۔

    سکہ کا ایک دوسرا رخ بھی ہے وہ یہ ہے کہ آج کے زمانہ میں اسرائیل کا قیام امریکہ کی سیاسی , اقتصادی, مادی ,جنگی اور فوجی مدد کی وجہ سے ہی ہے۔اور اسی کی مرہون منت ہے۔اور امریکہ اس کی ہر طرح کی مدد کوئی ڈھکے چھپے نہیں بلکہ على الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 1973 ع سے ہی امریکہ اسرائیل کو سب سے بڑا فنڈ فراہم کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسرائیل کو ہر سال امریکہ سے بنا کسی شرط کے تین ارب ڈالر کی مدد ملتی ہے جو اس کی کل بیرونی مدد کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ ہر اسرائیلی کو ہر سال پانچ سو ڈالر کی مدد دیتا ہے۔ اور امریکہ اسرائیل کو 2008 ع تک سو ارب ڈالر سے زائد کی مدد دے چکا ہے۔ اس کو جنگی سازو سامان, جنگی ہیلی کاپٹر اور طیارے سپلائی کرتا ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو اپنے جاسوسی ایجنسیوں کی معلومات تک پہونچنے کی بھی اجازت ہے۔جو وہ اپنے کسی بھی دوست ممالک کو نہیں دیتا ہے۔مادی اور جنگی مدد کے علاوہ امریکہ اسرائیل کی سیاسی مدد بھی برابر کرتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے 2008 ع تک اقوام متحد ہ میں اسرائیل کے خلاف پاس شدہ 45 قراردودوں کو ویٹو کیا ہےاور بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر ہمیشہ اس کی طرف سے دفاع کیا ہے۔

    ان سب کا واضح اور صاف مطلب ہے کہ اسرائیل اگر فلسطینی مسلمانوں کا قتل کرہا ہے, ان کا خون بہا رہا ہے تو وہ امریکی ہتھیاروں سے کر رہا ہے۔ان کے اوپر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑ رہا ہے تو امریکہ کی معنوی و مالی مدد سے کر رہا ہے۔ اس کے باوجود تمام مسلمان ممالک کے امریکہ کے ساتھ ہر طرح کے سفارتی, سیاسی, معاشی, تجارتی, فوجی وغیرہ تعلقات قائم ہیں بلکہ بہت سارے ممالک اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور دوستی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے بلکہ بعض مسلمان ممالک کے اربوں ڈالر امریکہ میں لگے ہوئے ہیں جن پر امریکی معیشت کا دارو مدار ہے اور اسی پر امریکی معیشت ٹکی ہوئی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کل خلیجی سرمایہ جو امریکہ میں لگا ہوا ہے وہ تقریبا تین ٹریلین ڈالر ہے ۔ اس میں خلیجی حکومتوں کا سرمایہ دو ٹریلین ڈالر جبکہ ذاتی اور شخصی سرمایہ ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے ۔یہ بہت بڑا سرمایہ ہے جو امریکہ کے کل جی ڈی پی (14 ٹریلین ڈالر ) کا تقریبا بیس فیصد ہے۔۔دیگر مالدار مسلمان ممالک اور افراد کا سرمایہ اس کے علاوہ ہے جس سے امریکہ فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسی سے اسرائیل کی مدد کرہا ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔

    ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل بظاہر صرف فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے لیکن امریکہ تو پوری دنیا کے مسلمانوں پر ظلم کرہا ہے۔ افغانستا ن سے لیکر عراق, سوریا, یمن, مصر, سوڈان , اور پاکستان ہر جگہ امریکہ مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے بلکہ دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی قیادت وہی کررہا ہے۔

    ان حقیقتوں کو جان لینے کے بعد واقعی یہ ایک حیران کن سوال ہے کہ ایک طرف تو دنیاکے تقریبا تمام مسلمان ممالک اور اس کے قائدین , حکام اور سربراہان دن رات اسرائیل کو گالیاں دیتے ہیں , اس کو پانی پی پی کے کوستے ہیں,اس کو امریکہ کی ناجائز اولاد بتاتے ہیں ۔ امریکہ کا 51 واں صوبہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کی ہر محفل میں برائی کر تے ہیں۔ اس کی خامیوں اور برایئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔اس کے ظلم وجور کا گلہ و شکوہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعلق بنانے سے گریز کرتے ہیں گویا کہ وہ ایک اچھوت ملک ہے جیسا کہ ہندستان کے اچھوت ہیں۔ چلیے بہت اچھی بات ہے۔ ہم اس موقف کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں اور اسی پر قائم و باقی رہنے کی تمنا کرتے ہیں۔ آپ کا یہ اسلامی اور دینی غیرت قابل صدتحسین ہے۔لیکن میرا سوال ان مسلمان ممالک اور ان کے سربراہوں سے ہے کہ جناب امریکہ ہی اس کا حمایتی ہے۔ اسی کے بل بوتے اسرائیل قائم ہے۔ امریکہ اس کی ہر طرح کی مدد کر رہا ہےتوپھر آپ امریکہ سے اپنے تعلقات کیوں قائم کیے ہوئے ہیں, امریکہ تو اسرائیل سے بڑا مجرم ہے پھر وہ آپ کا چہیتا کیوں بنا ہوا ہے۔ امریکہ کا ظلم تو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے پھر اس کے ساتھ اتنی قربت کیوں ہے۔امریکہ کے سلسلے میں آپ کا اسلامی اور دینی غیرت کہاں ہے؟

    کیا یہ سب جان لینے کے باوجود مسلمان ممالک اور ان کے سربراہوں کا اسرائیلی مظالم پر گلہ و شکوہ کرنا, اس پر رونا دھونا اور واویلا مچانا جائز ہے؟ کیا ہمیں اس کا حق حاصل ہے؟ میرے خیال میں ہمیں اس کا حق نہیں حاصل ہے۔ اور ہمارا آنسوبہانا مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

    کیا یہ مسلمان ممالک کی دوہری پالیسی نہیں ہے۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں ہے۔کیونکہ دوست کا دوست دوست ہوتا ہے اور دشمن کا دوست دوست نہیں بلکہ دشمن ہوتا ہے۔کیا مسلمان ممالک کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں کہ امریکہ کے جرائم نظر نہیں آتے ہیں ۔ کیا یہ پتہ نہیں ہے کہ امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی, معاون, مددگار, فنڈ فراہم کرنے والا , جنگی سازو سامان دینے والا ہے۔اگر اسرائیل مجرم ہے تو امریکہ بھی مجرم ہے بلکہ اس سے بڑا مجرم ہے پھر اس سے اتنی شناسائی کیوں ہے۔اس سے ہر طرح کے تعلقات کیوں قائم ہیں ؟ کیا یہ ہماری مجبوری ہے یا مصلحت؟ خواہ ہم کچھ بھی کہیں لیکن یہ بلا شبہ اسلامی ممالک کی دوغلی پالیسی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

    اورکیا آپ جانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ یہ در اصل نتیجہ ہے ہمارے اختلاف, تفرقہ اور نا اتفاقی کا۔ اور اس کی وجہ ہماری کمزوری اور باہمی لڑائی جگھڑا ہے۔ سچ فرمایا اللہ رب العزت نے: و أطیعو اللہ و رسولہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذہب ریحکم و اصبروا , ان اللہ مع الصابرین( سورہ انفال /آیت نمبر 46) ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو, اور آپس میں تنازعہ و اختلاف نہ کرو ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی , اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اس آیت میں خاص غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالى نے اسں میں ناکامی و نامرادی, کمزوری و پسپائی کو تنازعہ, اختلاف و تفرقہ سے جوڑا ہے۔ کسی اور چیز سے نہیں جوڑا ہے جس میں ہم تمام مسلمانوں کے لیے یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ تفرقہ, تنازعہ و اختلاف میں ناکامی ہے جبکہ اتحاد میں خیرو برکت , طاقت و قوت ہے۔

    معلوم ہوا کہ یہ ہمارا دوہرا معیار اور پیمانہ یہ ہمارے اختلافات و تنازعات کا حتمی نتیجہ ہے۔ورنہ اسرائیل و امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں اسلام و مسلمانوں کے دشمن ہیں۔لہذا دونوں سے تعلقات میں فرق کیسا؟

    اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ دو چار ملک مل کے بھی امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں اسی لیے ضروری کہ تمام اسلامی ممالک متحد ہوں تبھی ہم اس دوغلی پالیسی سے نجات پا سکتے ہیں کیونکہ اتحاد برکت, طاقت , قوت ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی دوسری طاقت ٹک نہیں سکتی ہے۔ورنہ ہم ایسے ہی دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اور دوسروں سے اپنی حفاظت, مسائل حل کرنے اور زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے اور دوسری قومیں ہمیں مزید در مزید ذلیل و رسوا کرتی رہیں گی۔اور مسلمان ممالک کی دوہری پالیسی کا یہ کھیل جاری و ساری رہے گا۔

    وما علینا الا البلاغ, وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

    25-8-1437 ھ/1-6-2016ع بروز بدھ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,953
    اگرچہ آپ نے بعض ممالک کی تخصیص کی ہے.اور آپ کا شکوہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے.اور بعض باتیں ٹھیک بھی ہیں.لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہتے ہیں.مسلم ممالک جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ براہ راست کسی قسم کی دشمنی نبھا سکیں. ماضی میں عرب اور اسرائیل کے درمیان تین بار جنگ ہوئی.اور تینوں میں عربوں کو شکست ہوئی. اور شکست کی بڑی وجہ عرب حکمرانوں اور مسلمانوں کے جذبات تھے. کوئی حکمت عملی نہیں تھی. اور نا ہی اب ہے.ایسی صورت میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا بیوقوفی ہے. اس کے لئے حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے. امریکہ یا یورپی ممالک سے سفارتی تعلقات ختم کرنا بھی عقلمندی نہیں اور نا ہی وہاں سے سرمایہ نکال لینے میں فائدہ ہے. جبکہ خلیجی ممالک کو بیک وقت اندرونی اور بیرونی مخالفت کا سامنا ہے. جس میں روافض اور ان کی فکر کےلوگ شامل ہیں.
     
  3. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    محترم جناب ابو عکاشہ صاحب
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    تبصرہ پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔میں نے اپنے مضمون میں امریکہ کے سلسلے میں تمام امسلمان ممالک کے موقف کا ذکر کیا ہے۔ اور میں نے یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ تمام ممالک امریکہ یا یورپ سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں۔ یا خلیجی ممالک فی الحال اپنا سرمایہ نکال لیں۔ کیونکہ مجھے بھی معلوم ہے کہ ایسا کرنا نا ممکن ہے۔ میں نے تو صرف یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ اور میں اسی پر زور ڈالنا چاہتا ہوں اور پھر میں نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ یہ در اصل مسلمان ممالک کی نااتفاقی کا نتیجہ ہے۔یہ وضاحت ہوگئی بہت اچھا ہوا۔
    اسی طرح امریکہ کے سلسلے میں نے خلیجی ممالک کو خاص نہیں کیا ہے بلکہ مثال کے طور پر میں نے صرف سرمایہ کا تذکرہ کیا ہے۔اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر کردیا ہے کہ دیگر مالدار ممالک اور باثروت افراد کا سرمایہ اس کے علاوہ ہے۔لہذا آپ اس کو خلیجی ممالک کے ساتھ خاص نہ کریں۔ اور جہاں تک روافض و شیعہ کا سوال ہے تو ان کے بارے میں میرا موقف وہی ہے جس کا تذکرہ میں نےاردو مجلس میں ہی شیعہ کے متعلق ایک مضمون میں کردیا ہے۔ شکریہ
     
  4. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    شیئرنگ کا شکریہ
     
  5. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    امريکہ اسرائيل تعلقات پر امريکی موقف

    آپ کی راۓ اس مخصوص سوچ اور غلط تصور کی آئينہ دار ہے جس کے مطابق امريکہ اور اسرائيل کو يکجا کر کے کسی بھی طور ايک ہی عنصر کے طور پر بيان کيا جاتا ہے۔

    جبکہ حقائق اس سے کوسوں دور ہيں۔

    اسرا‏ئيل کے ساتھ ہمارے طويل المدت بنيادوں پر استوار سفارتی تعلقات کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ہر عالمی ايشو پر ہمارا موقف اور ہماری خارجہ پاليسی کے فيصلے ايک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہيں يا لازمی طور پر وابستہ ہيں۔ ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ خطے ميں بے شمار عرب ممالک کے ساتھ بھی ہمارے مضبوط سفارتی روابط اور اسٹريجک شراکت دارياں ہيں۔ تاہم اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ اسرائيل يا خطے کا کوئ بھی دوسرا ملک کسی بھی ايشو پر اپنے موقف کے ليے کسی طور بھی ہم پر انحصار کرتا ہے يا ہماری تائيد کا تابع ہے۔

    مختلف اردو فورمز پر غزہ کی صورت حال کے حوالے سے راۓ اور تجزيے پڑھنے کے بعد يہ واضح ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل اور فلسطين کے کئ دہائيوں پر محيط تنازعے کے خاتمے کے ضمن ميں کی جانے والی کوششوں اور اس حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کے حوالے سے غلط فہمی اور ابہام پايا جاتا ہے۔

    امريکی حکومت مغربی کنارے اور غزہ ميں ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور 1967 سے فلسطينی علاقوں پر اسرائيلی تسلط کے ضمن ميں فلسطينی عوام کے موقف کی مکمل حمايت کرتی ہے۔ امريکی حکومت کے مشرق وسطی کے حوالے سے نقطہ نظر کو عرب ليگ کی بھی حمايت حاصل ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت تمام متعلقہ فريقين سے مکمل رابطے ميں ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جاۓ

    ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے جہاں وہ اسرائيل کے شانہ بشانہ امن کے ساتھ زندگی گزار سکيں۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ پر زيادہ تر تنقید اس غلط سوچ کی بنياد پر کی جاتی ہے کہ امريکہ کو دونوں ميں سے کسی ايک فريق کو منتخب کرنا ہو گا۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ اسرائيل کی غيرمشروط حمايت کرتا ہے۔

    ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے ميں اسرائيل يا کسی اور ملک کے فوجی اقدامات کی توجيحات يا ان کی حمايت اور ترجمانی نہيں کروں گا۔

    جو راۓ دہندگان امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال اٹھاتے ہيں وہ صرف ايک پہلو پر توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہيں۔ حقيقت يہ ہے کہ امريکہ دنيا کے بہت سے ممالک کی افواج کو اسلحے کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان اور تربيت فراہم کرتا ہے۔ ان ميں اسرائيل کے علاوہ اسی خطے ميں لبنان، سعودی عرب اور شام سميت بہت سے ممالک شامل ہيں۔

    اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  6. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    بسم اللہ
    فواد صاحب : آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے امریکہ کے موقف کی وضاحت کی۔لیکن معاف کیجیے گا کہ ہماری رائے کسی مخصوص سوچ یا غلط تصور کا آئینہ دار نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اور آپ کی وضاحت سے سچ کو جھوٹ بناکر نہیں پیش کیا جاسکتا ہے۔امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔
    اور جہاں تک عرب و مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات کی بات ہے تو آپ کا فرمانا بجا ہےاور بلاشبہ یہ تعلقات قائم ہیں اور قائم رہنا چائیے۔ میں تعلقات کا مخالف نہیں ہوں بلکہ ماضی کی طرح پوری دنیا پر اسلام کے غلبہ و رعب و داب کی صورت میں بھی تعلقات قائم رہیں گے ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ تعلقات کس کے مصلحت و مفادات میں ہیں۔اور ان تعلقات کا رجحان و میلان کس کی طرف زیادہ ہے؟ بلاشبہ یہ تعلقات امریکی مفادات کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ صرف اسی کی مصلحت میں ہیں۔اور چونکہ یہ آپ کی ہر طرح کی سیاسی ، اقتصادی و سماجی وغیرہ مصلحت کو پورا کر رہے ہیں تو یہ آپ تعلقات قائم کییے ہوئے ہیں ورنہ کب آپ قطع تعلق کر لیتے۔
    اور جہاں تک سوال مسئلہ فلسطین کی تائیید و حمایت اور ایک آزاد ریاست کے قیام کا ہے ۔تو یہ صرف لفاظی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ ستر سال ہو گئے کیوں نہیں مسئلہ اب تک حل ہوا؟ ملک شام کا بٹوارہ مغربی ممالک نے کیا ۔ پھر اسرائیل کو لا کے وہاں آباد کیا۔ اس کو کھلی چھوٹ دی ۔ اور اب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کر رہے ہیں ۔تو کیا یہ جھوٹ نہیں ہے؟ کیا یہ کھلا دھوکا اور بازیگری نہیں ہے؟ آپ کس بنیاد پر اسرائیل کو فلسطین میں باقی رکھنا چاہتے ہیں؟ فلسطین پورا فلسطینیوں کا ہے وہاں اسرائیل کی کیا ضرورت ہے؟ اسرائیل کو امریکہ میں لے جا کر بسا دیجیے۔اگر کوئی امریکہ پر قبضہ کر لیتا ہے اورنصف امریکہ کی شرط پر آپ سے صلح کرتا ہے تو کیا آپ آدھا امریکہ اس کو دینے پر راضی ہو جائیں گے؟
    اور جہاں تک سوال آپ کے مسلمان ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے کا ہے ۔ تو اس میں کیا شک ہے کہ آپ اسلحہ کے عالمی سوداگر ہیں ۔ اور ایسا آپ اپنے اقتصادی و معاشی فائدہ کے لیے کرتے ہیں- بطور احسان نہیں- کیونکہ اسلحہ سازی امریکہ کی بنیادی و خاص صنعت ہے۔اس کے علاوہ اسلحہ بیچ کے آپ دنیا میں اسلحہ کی دوڑ کو فروغ دینے میں حصہ لے رہے ہیں۔
    اور دنیا کے تمام ممالک کو خصوصا تیسری دنیا کے ممالک کو آپس میں لڑانا اور پھر ان کو اسلحہ کی سپلائی کرنا آپ کا محبوب مشغلہ اور پرانا کھیل ہے۔بلا شبہ آپ عالمی دھشت گرد ہیں لیکن جھوٹ میں مسلمانوں کو آپ نے بدنام کر رکھا ہے۔یہ بات میں خود سے نہیں کہہ رہا ہوں ۔ اس کے لیے صرف ولیم بلم کی کتاب کلنگ ہوپ کا مطالعہ کافی ہے۔اور ایک ویڈیو بھی ہے جو آپ دیکھ سکتے ہیں ۔
    یہاں پر آپ نے پاکستان و بھارت کا مسئلہ کس لیے چھیڑ دیا۔ اس کا تو موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ پاکستان و ہندستان میں آپ کس کو ترجیح دیتے ہیں یہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ جتنی بھی جنگیں صرف انڈیا و پاکستان کے مابین نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہو رہی ہیں وہ سب امریکہ و مغربی ممالک کی برکتوں سے ہو رہی ہیں جو تیسری دنیا کے ممالک کو انہیں مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی ترقی نہ ہو۔اسی طرح جو آپ اقتصادی مدد فراہم کرتے ہیں وہ بھی ایک سازش ہے ۔اس کے ذریعہ آپ مسلمان ممالک کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
    فواد صاحب : اللہ کا فضل وکرم ہے کہ میں نے شرعی تعلیم حاصل کی ہے پھر میں نے اسلامی تاریخ کا دراسہ کیا ہے۔ اور الحمد للہ اس کا مجھے علم ہے۔لہذا آپ ان چکنی چپڑی باتوںسے مجھ کو بیوقوف نہیں بنا سکتے ہیں یا آپ غلط بیانی سے مجھ کو رام نہیں کر سکتے ہیں۔ہاں ایک بات میں ضرور اس مناسبت سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مطمئن رہیں ۔ اس ایک مضمون سے آپ کے مفادات پے کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے ۔ آپ جو بھی کریں مسلمان ممالک لا چار و مجبور ہیں۔ آپ کی تمام سازشیں و مکاریاں کامیاب ہیں ۔ آپ نے مسلمان ممالک کو تقسیم در تقسیم کردیا۔ ملکوں و سرحدوں میں بانٹ دیا۔ اور تقسیم کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ خلافت کا خاتمہ کروادیا۔ امت کا تصور ختم کردیا۔آپسی لڑائیوں و جگھڑوں میں ان کو الجھا دیا۔ امت اسلامیہ کا دور تنزل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ لہذا آپ پریشان نہ ہوں ۔ آپ کے وضاحت کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ آپ نے بیکار میں تکلیف اٹھائی۔شکریہ
     
    Last edited: ‏جون 22, 2016
    • متفق متفق x 3
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,953
    یہ کتاب اور ویڈیو اگر آن لائن موجود ہو تو اس کا لنک یہاں شیئر کردیں ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    ابو عکاشہ بھائی : میرے خیال میں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ انٹرنٹ اس طرح کے مواد سے بھر ہوا ہے۔ پھر بھی آپ کا حکم ہے تو اس کی تعمیل کر رہا ہوں ۔ اور ایک دو نہیں کئی لنک دے رہا ہوں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
    یہ سب لنک ہیں ۔ مقالات و مضامین بھی ہیں ۔ ویڈیوز بھی ہیں ۔ ایک ویڈیو تو آپ کیے یہأن تیار ہوا ہے ۔




    https://en.wikipedia.org/wiki/United_States_and_state_terrorism

    https://en.wikipedia.org/wiki/United_States_and_state-sponsored_terrorism

    http://www.euronews.com/2015/04/17/chomsky-says-us-is-world-s-biggest-terrorist/

    Chomsky says US is world’s biggest terrorist

    عالمی دہشت گرد امریکہ دہشت گرد اسلام نہیں
    یہ ایک نظم ہے جو پاکستان سے تیار ہوئی ہے ۔

    https://williamblum.org/books/killing-hope/
    https://en.wikipedia.org/wiki/Killing_Hope
    یہ ولیم بلم اور اس کی کتاب کا حوالہ ہے اور اسی کتاب کے حوالہ سے مذکورہ بالا نظم تیار کی گئی ہے۔

    بھائی زبیر احمد ، بابر تنویر اور ابو عکاشہ آپ سب کا بے حد شکریہ موضوع کے پسند کرنے اور اتفاق پر
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  10. ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

    ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جون 30, 2015
    پیغامات:
    212
  11. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    آپ نے يہ بالکل درست کہا ہے کہ امريکی حکومت اپنے شہريوں کے مفادات کو مقدم سمجھتی ہے اور يہی ان کے نزديک سب سے اہم مقصد ہے۔

    دنيا ميں کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومتی عہديداروں کو بھی بحثيت مجموعی اس بات کا مينڈيٹ ديا جاتا ہے کہ وہ اپنے شہريوں کے مفادات کا تحفظ کريں، ان کی زندگيوں کو محفوظ بنائيں اور عالمی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کريں۔ يہ نا تو کوئ خفيہ ايجنڈا ہے اور نا ہی کو پيچيدہ سازش۔ يہ عالمی سطح پر ايک تسليم شدہ حقيقت ہے کہ منتخب حکومتيں اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

    ليکن اس ضمن ميں ميرا ايک سوال ہے۔ امريکی عوام کے مفادات کے ليے بہتر کيا ہے؟ زيادہ سے سے زيادہ دوست بنانا جو مختلف سطحوں پر رائج خليج کو پار کر کے ايسے مواقع پيدا کريں جس سے باہم مفادات کے معاملات کو حل کيا جا سکے يا دانستہ امريکہ سے نفرت کو پروان چڑھا کر زيادہ سے زيادہ دشمن تيار کرنا بہتر لائحہ عمل ہے؟

    کونسا طريقہ کار دانش کے اصولوں سے ميل کھاتا ہے اور امريکی مفادات کے تحفظ کے ہمارے تسليم شدہ مقصد کے قريب تر لے کے جا سکتا ہے؟

    دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  12. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    امريکی حکومت کی جانب سے فلسطين يا کسی بھی ملک کو دی جانے والی امداد بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اس ضمن ميں کوئ ايسا مستقل کليہ يا ضابطہ استوار نہيں کيا جا سکتا جو بيک وقت دنيا کے تمام ممالک کی ہر پل بدلتی ہوئ صورت حال اور ضروريات کو مد نظر رکھتے ہوۓ بحث و مباحثے سے مبرا ہو۔ يہ ايک مستقل عمل کا حصہ ہوتا ہے جس ميں سرکاری اور غير سرکاری تنظيموں اور دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے بے شمار ماہرين شامل ہوتے ہيں۔

    يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد مختلف جاری منصوبوں اور زمينی حقائق کی روشنی ميں دونوں ممالک کے مابين باہم تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوۓ وقت کے ساتھ تبديل ہوتی رہی ہے۔

    جہاں تک امريکہ کی جانب سے فلسطين کے لوگوں کی ليے کی جانے والی مدد اور اس ضمن ميں آپ کا سوال ہے تو کچھ اعداد وشمار پيش ہيں جو آپ کو حقائق سمجھنے ميں مدد ديں گے۔

    سال 1994 سے اب تک يوايس ايڈز کے مختلف پروگرامز کے طفيل رياستی اداروں کو مستحکم کرنے ميں مدد کے علاوہ، قابل عمل معيشت کے فروغ اور فلسطينيوں کی روزمرہ زندگيوں کو بہتر کرنے ميں مدد ملی ہے۔ مختلف شعبوں ميں فلسطين کے لوگوں کو فراہم کی جانے والی امداد کا تخمينہ 9۔4 بلين ڈالرز ہے۔

    جن شعبوں ميں امريکہ کی جانب سے فلسطين کو امداد فراہم کی گئ ہے ان ميں بنيادی ڈھانچوں کی تعمير جن ميں سکول، کلينک، سڑکوں کی تعمير، پانی کی فراہمی اور صحت وصفائ سے متعلق مختلف منصوبے شامل ہيں۔

    اس کے علاوہ معاشی فروغ سے متعلق مختلف منصوبے جن ميں تجارت ميں وسعت، زراعت سے متعلق مختلف کاروباری منصوبوں ميں بہتری اور روزگار کے مزید مواقع کی فراہمی کو يقینی بنانے سے متعلق شعبوں ميں يو ايس ايڈ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے ميں صحت سے متعلق نظام کو مستحکم کرنے، جمہوری نظام حکومت کو تعاون فراہم کرنے اور تعليم کے معيار ميں بہتری کے ليے بھی يو ايس ايڈ ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے۔

    فلسطين کے عوام کے ساتھ ہمارے طويل المدت تعلق اور جاری کاوشوں کو پرکھنے کے ليے مزيد اعداد وشمار آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

    https://www.usaid.gov/west-bank-and-gaza/fact-sheets/gaza


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  13. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    اگر آپ کی دليل واقعی درست ہوتی تو پھر تو اس پيمانے کے تحت عرب دنيا کے بے شمار ممالک کو بھی اسی پيراۓ ميں بيان کيا جانا چاہيے کيونکہ حقيقت تو يہی ہے کہ اسرائيل کے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے حق سے متعلق امريکی موقف کو اسلامی دنيا ميں بے شمار حکومتوں کی حمايت حاصل ہے۔

    دو ممالک کے درميان سفارتی تعلقات، تجارتی روابط اور اسٹريجک شراکت داری کا يہ مطلب نہيں ہوتا کہ بيرونی حکومتوں کو علاقائ تنازعوں ميں براہراست فريق بھی گردانا جاۓ۔

    ميں نے پہلے بھی يہ وضاحت کی تھی کہ خطے ميں جاری تشدد کے مستقل حل کا انحصار امريکی حکومت کے کسی فيصلے يا خارجہ پاليسی پر نہيں ہے۔ امريکہ ان عالمی کوششوں کا حصہ ہے جو فلسطينی اور اسرائيلی عوام کی امنگوں کے مطابق خطے ميں پائيدار امن کے ليے کی جا رہی ہيں۔

    ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے۔

    گزشتہ چند برسوں کے دوران ہميں دونوں فريقين کے درميان خليج ميں کمی کرنے ميں کسی قدر کاميابی ضرور حاصل ہوئ ہے اور ہم اب بھی اس بات پر يقین رکھتے ہيں کہ مستقبل ميں بھی قابل ذکر پيش رفت کے امکانات موجود ہيں۔ ہمارے پاس اس ضمن ميں کوشش کے سوا کوئ چارہ نہيں ہے۔

    امريکہ کے عرب دنيا کے ساتھ دوستانہ روابط کی ايک طويل تاريخ ہے۔ يہ تاثر کہ فلسطينی عوام کی ہلاکت اور نقل مکانی امريکہ کی مرہون منت ہے، بالکل غلط ہے۔

    امريکہ فلسطينی عوام کی تکاليف سے بخوبی واقف ہے۔ تاہم اس ضمن ميں حتمی فيصلہ اس خطے کے عوام اور ان کے نمايندوں نے کرنا ہے۔

    ايسے سياسی حل کا حصول جو اسرائيل کے ساتھ ساتھ ايک خودمختار فلسطينی رياست کے قيام کی بھی راہ ہموار کرے، بدستور امريکہ سميت تمام فريقین کی اہم ترين ترجيح ہے کيونکہ ماضی کے تجربوں نے يہی سکھايا ہے کہ امن کے ضمن ميں حائل دشوارياں سے نبردآزما ہونا بہرصورت جنگ کی تباہکاريوں سے بہتر ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  14. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی معيشت ترقی کے ليے دفاع کی صنعت پر انحصار نہيں کرتی۔ يہ بھی ياد رہے کہ صرف اسلحہ سازی ہی وہ واحد صنعت نہيں ہے جس ميں امريکہ عالمی درجہ بندی ميں سبقت لیے ہوۓ ہے۔ چاہے وہ تعليم ،زرعات، آئ – ٹی ،جہاز سازی يا تفريح کی صنعت ہو، امريکی معيشت کسی ايک صنعت پر مخصوص نہيں ہے۔

    يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

    اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

    اعداد وشمار اور عملی حقائق اس تھيوری کو غلط ثابت کرتے ہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  15. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی جمہوری ملک ايسی خارجہ پاليسياں تشکيل نہيں دے سکتا جو اس بات کی متقاضی ہوں کہ معاشی مفادات کے حصول کے ليے دانستہ اپنے اتحاديوں اور شراکت داروں کے ساتھ ساتھ اپنے فوجيوں کو بھی ہلاکت ميں ڈالا جاۓ۔ دوسری جانب آپ اگر ان دہشت گردوں کا جائزہ ليں جن کے خلاف ہم نبرد آزما ہيں تو يہ واضح ہو گا کہ عوامی سطح پر اپنے ايجنڈے کو مسلط کرنے کے ليے وہ اپنی جانيں دينے سے بھی گريز نہيں کرتے۔ يقینی طور پر اس قسم کی خونی سوچ کے پيچھے محرک يہ نہيں ہو سکتا کہ کسی بيرونی ملک کی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ ديا جاۓ۔

    دلچسپ امر يہ ہے کہ انھی فورمز پر بعض راۓ دہندگان نے انتہائ جذباتی انداز ميں مجھ سے اس دليل کے ساتھ بحث کی ہے کہ امريکہ کو افغانستان ميں شکست ہو چکی ہے اور ہمارے پاس اس خطے سے نکلنے کے سوا کوئ چارہ نہيں ہے کيونکہ امريکی کی معيشت تباہ ہو چکی ہے اور ہماری دنيا ميں سوپر پاور کی حيثيت خطرات سے دوچار ہے۔ ليکن آپ کا يہ دعوی ہے کہ امريکہ دانستہ دنيا بھر ميں جنگوں کا آغاز کرتا ہے تا کہ معاشی استحکام حاصل کر سکے اور اپنے اسلحے کے کارخانے چالو رکھ سکے۔

    اگر امريکہ کی عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ محض معاشی خوشحالی اور اسلحے کی صنعت کے فروغ کے لیے تھی تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ يہ مبينہ معاشی وسائل اور خزانے کيوں منظرعام پر نہيں آۓ؟

    کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق ميں فوجی کاروائ کے بعد معاشی فوائد حاصل کر رہا ہے؟ يقينی طور پر نہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں