خطبہ حرم مدنی 22-12-2017 "ازدواجی زندگی میں طلاق کے اسباب" از حذیفی حفظہ اللہ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏دسمبر 22, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753

    فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 04 ربیع الثانی 1439کاخطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ازدواجی زندگی میں طلاق کے اسباب" ارشاد فرمایا جس انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو ایک جان سے پیدا فرما کر ان کے جوڑے بنائے اور کرۂ ارضی آباد کاری کے لیے نکاح جیسے نعمت عطا فرمائی اور بد کاری کے راستے بند کیے، پھر انہوں نے زانیوں کو ملنے والی سزا کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ شادی کے بہت سے فوائد ہیں جبکہ زنا کاری کے اس سے زیادہ نقصانات ہیں۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ طلاق دینے سے معاشرے اور خاندان کا توازن بگڑتا ہے نیز طلاق شیطان کیلیے اعزاز کا باعث بھی بنتی ہے، پھر انہوں نے شادی کو دوام بخشنے کے اسباب میں کہا کہ: حسن معاشرت، اختلافات کا ابتدا میں ہی خاتمہ، دو طرفہ رشتہ داروں کی طرف سے صلح کا اقدام، صبر و تحمل، اپنے چند حقوق سے دستبرداری، بیوی سے غلطی ہونے پر سمجھانا شامل ہے، جبکہ بڑھتی ہوئی شرحِ طلاق کے اسباب میں بتلایا کہ : بد اخلاقی اور بد زبانی، دو طرفہ رشتہ داروں کی میاں بیوی کے درمیان دخل اندازی ، ایک دوسرے کی حق تلفی، بغیر اجازت گھر سے نکلنا اس کے اسباب میں آتا ہے، پھر انہوں نے طلاق دینے کا شرعی طریقہ بیان کیا اور آخر میں سب کے جامع دعا فرمائی۔

    عربی خطبہ کی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں

    پہلا خطبہ:

    تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے انسانوں اور زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز کے جوڑے بنائے نیز ان کے بھی جوڑے بنائے جن کے بارے میں انسان لا علم ہے، اللہ تعالی نے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کا حکم دیا اور فساد سے روکتے ہوئے فرمایا: {وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ} اصلاح کرو اور فسادیوں کے راستے پر مت چلو۔[الأعراف : 142] اللہ تبارک و تعالی نے لوگوں کیلیے مصلحتوں و فوائد کے حصول اور مفاسد و نقصانات سے بچانے کی غرض سے شرعی احکامات جاری کیے، میں اپنے رب کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور توبہ و استغفار کرتا ہوں، نیز گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں وہ تمام جہانوں سے مستغنی ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے صادق و امین رسول ہیں ، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    خلوت و جلوت میں تقوی الہی اختیار کرو؛ کیونکہ ہر کسی کو زندگی یا موت کے بعد تقوی سے ہی کامرانی ملے گی اور خواہش پرستی سے ہی لوگ ناکام و نامراد ہوں گے۔

    لوگو! اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل یاد کرو کہ اللہ تعالی نے اتنے مرد و زن ایک جان سے پیدا فرمائے، اور ان کو جوڑے بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً } لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے [دنیا میں] بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔ [النساء : 1]

    اسی طرح فرمایا: {هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا} وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس کے ہاں سکون حاصل کرے [الأعراف : 189]

    اس کے بعد اللہ تعالی کا نظام اور شریعت یہ ہے کہ ایک مرد اور عورت شرعی عقدِ نکاح کے ذریعے ایک بندھن میں بندھ جائیں، تا کہ فطری اور انسانی ضروریات ازدواجی تعلقات کے ذریعے نکاح کی صورت میں پوری کریں اور بد کاری سے بچیں۔

    چنانچہ نکاح عفت، برکت، افزائش نسل، پاکیزگی، عنایت، قلبی صحت، اور نیک اولاد کی صورت میں لمبی عمر کا راستہ ہے، جبکہ بد کاری اور زنا خباثت، قلبی امراض، مرد و زن کیلیے تباہی، گناہوں، آفتوں، بے برکتی، نسل کُشی اور آخرت میں عذاب کا راستہ ہے۔

    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسرا و معراج کی رات نبی ﷺ نے جو عجائب دیکھے تھے انہیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "پھر آپ ﷺ ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کے سروں کو پتھروں سے کچلا جا رہا ہے، چنانچہ جب بھی سر کچلا جاتا وہ پھر سے بعینہٖ اپنی اصل حالت میں آ جاتا، اور ان کے عذاب میں معمولی سی بھی کمی نہیں کی جا رہی تھی، تو آپ ﷺ نے پوچھا: جبریل ! یہ کون ہیں؟
    تو جبریل نے جواب دیا: ان کے سر فرض نمازوں سے بوجھل ہوتے تھے۔
    پھر آپ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کی اگلی اور پچھلی شرمگاہوں پر چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے، وہ اونٹوں اور جانوروں کی طرح چر رہے تھے، کانٹے دار گھاس ، تھوہر ، جہنم کے انگارے اور پتھر کھا رہے تھے۔
    آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون ہیں؟
    تو جبریل نے جوا ب دیا کہ: یہ اپنے مالوں کی زکاۃ نہیں دیتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے ان پر کسی قسم کی کمی نہیں کی تھی۔
    پھر آپ ﷺ ایسے لوگوں کے پاس آئے جن کے سامنے ہانڈی میں بالکل تیار شدہ گوشت موجود ہے اور ایک دوسری گندی ہانڈی میں کچا گوشت ہے، تو وہ بالکل تیار شدہ اور اچھا گوشت چھوڑ کر گندی ہانڈی والا گوشت تناول کرتے۔
    آپ ﷺ نے پوچھا : جبریل یہ کون ہیں؟
    تو جبریل نے جواب دیا کہ: یہ آپ کی امت کے ہو شخص ہے جس کے پاس اپنی بیوی ہونے کے با وجود بازاری خواتین کے ساتھ پوری رات گزارتا ہے اور وہ خاتون ہے جس کا اپنا خاوند ہونے کے باوجود بازاری مردوں کیساتھ پوری رات گزارتی ہے" اسے ابن جریر نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے۔

    اسی طرح سعد بن سنان خدری رضی اللہ عنہ کی آپ ﷺ سے روایت کردہ حديثِ اسرا و معراج میں ہے کہ آپ نے فرمایا: پھر کچھ ہی دیر گزری تھی کہ میں چند دستر خوانوں کے پاس سے گزرا جس پر کٹا ہوا گوشت چُنا ہوا تھا لیکن اس کے قریب کوئی بھی نہیں جاتا تھا، جبکہ دوسری طرف مزید دستر خوان تھے جہاں بد بو دار اور سڑا ہوا گوشت تھا اسے لوگ کھا رہے تھے، میں نے کہا:
    جبریل یہ کون ہیں؟
    تو جبریل نے جواب دیا کہ: یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو حلال ترک کر کے حرام کا ارتکاب کرتے تھے۔
    آپ ﷺ نے فرمایا پھر تھوڑی دیر بعد میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کی طرح تھے، جیسے ہی کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ؛ گر جا تے اور کہتے: "پروردگار! ابھی قیامت قائم مت کرنا" آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ: وہ آل فرعون کی گزر گاہ میں پڑے ہوں گے، چنانچہ وہ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے چلے جائیں گے، آپ ﷺ فرماتے ہیں میں نے ان کی آہ و بکا بھی سنی، تو میں نے کہا:
    جبریل ! یہ کون ہیں؟
    تو جبریل نے بتلایا کہ: یہ آپ کی امت کے سود خور ہیں، جن کے بارے میں فرمایا: {اَلَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ} جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے خبطی بنا دیا ہو [البقرة : 275]۔ اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

    ازدواجی زندگی ایسا گھر ہے جو اولاد کی پرورش، دیکھ بھال، اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے، والد کی شفقت اور ممتا کی محبت ایسی نسلیں تیار کرتی ہے جو زندگی کے بار اٹھانے کی صلاحیت رکھے، معاشرے کیلیے مفید ثابت ہوں، معاشرے کو ہر میدان میں تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرے، پدری شفقت اور ممتا کی محبت نئی نسل کی اعلی اخلاقی اقدار کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور مذموم صفات سے دور رکھتی ہے، نیز اخروی دائمی زندگی کیلیے نیکیاں کرنے کی تربیت دیتی ہے، چنانچہ چھوٹے بچے انہیں دیکھ کر یا سن کر سیکھتے ہیں؛ کیونکہ وہ خود سے پڑھ کر سبق حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

    شادی کا بندھن ایک عظیم تر معاہدہ ، مضبوط ترین رشتہ اور ٹھوس ناتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا[ 20] وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا} اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ، کیا تم اس پر بہتان لگا کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو [20] اور تم لے بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں [النساء : 20-21] مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد شادی کا بندھن ہے۔

    اس بندھن کیساتھ میاں بیوی کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، بچوں کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، میاں بیوی کے اقربا کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، پورے معاشرے کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، دنیا و آخرت کی اتنی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں جنہیں شمار کرنا ممکن ہی نہیں ، چنانچہ اس بندھن کو توڑنا، اس معاہدے کو ختم کرنا ، اور ازدواجی زندگی کو طلاق سے برخاست کرنا مذکورہ تمام فوائد و مصلحتوں کو رائگاں کرتا ہے، اس کی وجہ سے خاوند کو بہت ہی زیادہ آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے جس سے دین، دنیا، اور صحت سب متاثر ہوتی ہیں، دوسری جانب بیوی کو خاوند سے کہیں زیادہ آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ عورت اپنی زندگی پہلے کی طرح استوار نہیں کر پاتی جبکہ بقیہ زندگی ندامت کے سپرد ہوتی ہے، اور آج کل کے دور میں تو خصوصی طور پر پریشانی ہوتی ہے کیونکہ حالات عورت کیلیے سازگار نہیں ہوتے، بچے اجڑ جاتے ہیں، انہیں بھی سنگین ترین حالات سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ والدین کی سائے میں گزاری ہوئی گذشتہ زندگی سے بالکل الگ تھلگ ہوتے ہیں، لہذا انہیں زندگی میں رنگ بھرنے والی تمام خوشیوں کا دامن چھوڑنا پڑتا ہے، نیز ان سنگین حالات میں ان کے سروں پر ہمہ قسم کے فکری انحراف اور امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہوتے ہیں، پورا معاشرہ بھی طلاق کے بعد رونما ہونے والے نقصانات سے متاثر ہوتا ہے، چنانچہ قطع رحمی زور پکڑتی ہے، بلکہ طلاق کی جتنی بھی خرابیاں شمار کر لو کم ہیں ۔

    تاہم طلاق کے عمومی اور خصوصی مفاسد و نقصانات کا اندازہ لگانے کیلیے جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پر غور کریں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے ؛ اور اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ڈالے ، چنانچہ ان میں سے ایک آ کر کہتا ہے کہ : "میں نے یہ کیا اور وہ کیا۔۔۔" تو شیطان اسے کہتا ہے کہ : "تو نے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا " پھر ان میں سے ایک اور آ کر کہتا ہے کہ : "میں نے فلاں کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی " شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے: "ہاں !تو ہے کارنامہ سر انجام دینے والا" پھر وہ اسے گلے لگا لیتا ہے) مسلم

    بہت سے لوگوں نے طلاق کو معمولی سمجھ لیا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود تو سنگین امور سمیت بہت سے نقصانات میں مبتلا ہوئے ہی تھے دوسروں کو بھی اس بھنور میں پھنسا دیتے ہیں۔

    آج کل معمولی وجوہات اور غلط فہمی کی بنا پر طلاق کی شرح بہت بڑھ چکی ہے، بلکہ طلاق کے اسباب میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، ان میں سب سے اہم سبب طلاق کے شرعی احکام سے جہالت اور کتاب و سنت کی تعلیمات سے رو گردانی ہے، حالانکہ شریعتِ اسلامیہ نے شادی کے بندھن کو مکمل تحفظ اور اہمیت دی ہے کہ مبادا یہ بندھن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو، ہوس پرستی کی اندھیریوں سے متزلزل ہو۔

    چونکہ طلاق کا سبب خاوند اور بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں ہو سکتے ہیں یا ان میں سے کسی کے رشتہ دار طلاق کا باعث بنتے ہیں تو شریعت نے ہر صورت حال سے نمٹنے کا الگ حل تجویز کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خاوند کو اس بندھن کی قدر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: { وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا} اور بیویوں کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لیے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ [البقرة : 231]

    اسی طرح فرمایا: { وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ} نیز عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسے کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں ، اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔ [البقرة : 228] مفسرین کہتے ہیں کہ: بیوی کا حسن معاشرت سے متعلق خاوند پر اتنا ہی حق ہے جتنا خاوند کا بیوی پر ہے، البتہ خاوند کو بیوی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

    اور خاوند کو چاہے کہ اپنی بیوی کیساتھ حسن سلوک، حسن معاشرت سے پیش آئے اور اگر کوئی بات بری بھی لگے تو صبر کرے عین ممکن ہے کہ حالات بہتر سے بہترین ہو جائیں ، یا انہیں اللہ تعالی نیک اولاد سے نوازے اور خاوند کو صبر کرنے پر اللہ تعالی کی طرف سے اجر بھی ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: { وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اللہ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو [النساء : 19]

    میاں بیوی کو اپنے اختلافات شروع میں ہی ختم کر دینے چاہییں چہ جائیکہ مزید بڑھیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھیں اور پھر ایک دوسرے کی پسند اور نا پسند کا بھر پور خیال کریں، یہ کام بہت ہی آسان ہے اور سب اس سے واقف ہیں۔

    شادی کے بندھن کو قائم رکھنے کیلیے سمجھ دار لوگ میاں بیوی کے مابین صلح کروائیں اور طرفین کے حقوق کی ادائیگی یقینی بنائیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا} اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ، اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کر دے گا، اللہ تعالیٰ یقیناً سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے [النساء : 35]

    صبر اور در گزر بھی ازدواجی زندگی کے دوام اور خوشحالی کا سبب ہے، چنانچہ ایسے میں صبر کا کڑوا گھونٹ لمبے عرصے کی مٹھاس کا باعث بنتا ہے، ویسے بھی مشکلات کا سامنا کرنے کیلیے صبر جیسی کوئی چیز نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ} یقیناً صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔[الزمر : 10]

    چشم پوشی اور در گزر کے سنگ زندگی میں رنگ بھرے جا سکتے ہیں، زندگی کو تر و تازگی، مسرت اور خوبصورتی کا لبادہ پہنایا جا سکتا ہے، ان سے زخم بھی مندمل ہو جاتے ہیں ۔

    صرفِ نظر اور در گزر زندگی کیلیے لازمی عناصر ہیں، میاں بیوی کو ان کی خصوصی طور پر ضرورت ہوتی ہے، لہذا غیر ضروری یا قابل تاخیر امور سے صرفِ نظر میاں بیوی دونوں کیلیے بہتر ہے؛ کیونکہ دور حاضر میں بہت سے خاوند عیش پرستی پر مبنی مطالبات پورے کرتے کرتے تھک چکے ہیں، پورے حقوق کا مطالبہ اور کسی ایک حق سے بھی عدم دستبرداری و صرفِ نظری کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نفرت اور بغض جنم لیتا ہے۔

    حقیقت میں شادی کی روح باہمی تعاون اور شفقت پر قائم ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں لہذا ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ یقیناً بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے [التغابن : 14] اس آیت میں مذکور عداوت سے مراد نیکی کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنا یا ان کیلیے عدمِ تعاون یا نیکی سے بالکل روک دینا ہے۔

    فرمانِ باری تعالی ہے: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} ’’درگزر اختیار کریں اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں [الأعراف : 199]

    ازدواجی زندگی دائمی بنانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے اخلاق میں شگفتگی پیدا کرے، اور اس کیلیے شریعت کی روشنی میں جائز امور بروئے کار لائے، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا} نیک عورتیں وہ ہیں جو [شوہروں کی] فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق [مال و آبرو]کی حفاظت کرنے والی ہوں ۔ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ [اگر نہ سمجھیں]تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو [پھر بھی نہ سمجھیں تو] انہیں مارو ، پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔[النساء : 34]

    قاضی اور منصفین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی میں جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں، تا کہ باہمی اتفاق قائم ہو اور طلاق کے خدشات زائل ہو جائیں۔

    خاوند پر بیوی کا حق ہے کہ حسن معاشرت، بیوی کیلیے مناسب رہائش، نان و نفقہ اور لباس کا انتظام کرے، ہر وقت خیر خواہی چاہے، تکلیف مت دے، اور گزند نہ پہنچائے۔

    طلاق کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی زبان دراز ، بد اخلاق، اجڈ اور گنوار ہو، تو ایسی صورت میں بیوی اپنا اخلاق درست کرے، اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے، اور بچوں کی صحیح تربیت کیلیے خوب محنت کرے، اور خاوند کی صرف وہی بات مانے جو اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث نہ ہو، چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جب کوئی عورت پانچوں نمازیں پڑھے، ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا: جنت کے من چاہے دروازے سے داخل ہو جاؤ) احمد، یہ حدیث حسن ہے۔

    بیوی کی ذمہ داری ہے کہ صحابیات رضی اللہ عنہن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے خاوند کی خدمت کرے، یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی کہ بیوی اپنے خاوند کے ہر دکھ سکھ کی ساجھی بنے اور اللہ تعالی کی اطاعت کیلیے معاونت کرے۔

    طلاق کا یہ بھی سبب ہے کہ میاں بیوی کے دو طرفہ یا یک طرفہ رشتہ دار ان کے درمیان دخل اندازی کریں، اس لیے رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور صرف اچھی بات ہی کیا کریں۔ ایک حدیث میں ہے کہ : (اللہ تعالی کی ایسے شخص پر لعنت ہے جو کسی کی بیوی کو خاوند کے خلاف یا خاوند کو بیوی کے خلاف بھڑکائے)

    بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاوند کے رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا کرے اور خصوصی طور پر ساس سسر کا خیال رکھے، اسی طرح خاوند بیوی کے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے، چنانچہ کئی بار کسی ایک کے رشتہ داروں کی حق تلفی بھی طلاق کا سبب بن جاتی ہے۔

    طلاق کا یہ بھی سبب ہے کہ : حیا باختہ ڈارمہ سیریل دیکھے جائیں یا فحاشی پھیلانے والی ویب گاہیں دیکھی جائیں۔

    خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا بھی طلاق کا سبب ہے، چنانچہ بیوی کیلیے خاوند کی اجازت سے ہی باہر جانا جائز ہے؛ کیونکہ خاوند کو معاملات کا زیادہ علم ہوتا ہے۔

    تاہم اگر شادی کا بندھن قائم رکھنا ناممکن ہو جائے تو اللہ تعالی نے طلاق دینا جائز قرار دیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ: (اللہ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ترین حلال چیز طلاق ہے) چنانچہ خاوند مکمل سوچ و بچار کے بعد اللہ تعالی کے حکم کے مطابق شرعی طلاق دے، فرمانِ باری تعالی ہے: { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} اے نبی! جب بیویوں کو طلاق دو تو انہیں عدت کے ایام میں طلاق دو، اور عدت شمار کرو[الطلاق : 1] آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مفسرین کہتے ہیں کہ: ایسے طہر میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہیں کیا، طلاق دینے کے بعد اگر چاہے تو دوران عدت رجوع کر لے، وگرنہ عدت ختم ہونے دے ، جیسے ہی عدت ختم ہو گی زوجیت کا تعلق ختم ہو جائے گا۔

    اس طرح سے طلاق دینے پر رجوع اور شادی قائم رہنے کی امید زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ اگر عدت ختم ہو جائے تو نئے حق مہر کیساتھ نیا نکاح کر سکتا ہے۔

    غور کریں کہ شادی کے بندھن کو تحفظ دینے کیلیے شریعت نے کتنی تاکید کی ہے جبکہ دوسری طرف آج کل طلاق کو اتنا ہی معمولی سمجھ لیا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم دے گا [النور : 21]

    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں ۔


    دوسرا خطبہ

    تمام تعریفیں اللہ رب العالمین اور رحمن و رحیم کیلیے ہیں، اس نے اپنے علم، حکمت اور رحمت کی روشنی میں احکامِ شریعت جاری کیے، وہی پاکیزہ اور عظیم معبود بر حق ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی علم و حکمت والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور برگزیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد -ﷺ-، انکی آل اور شریعت پر قائم تمام صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    تقوی الہی اختیار کرو اور اسلام کے کڑے کو مضبوطی سے تھام لو۔

    اللہ کے بندو!

    اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدة : 2]

    مسلمانو!

    کچھ نوجوانوں کی زبان پر طلاق کا لفظ اولاد، اقربا، اور کسی بھی دوسرے شخص کے حقوق کا خیال بالا طاق رکھتے ہوئے پانی کی طرح جاری ہے، بسا اوقات مختلف مجالس میں تو کبھی ایک ہی مجلس میں کئی بار طلاق دے دیتا ہے، پھر اس کے بعد فتوے تلاش کرتا ہے، بسا اوقات حیلہ بازی بھی کرتا ہے اور کبھی کسی قسم کی گنجائش نہیں ملتی اور بلا سود ندامت اٹھانی پڑتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ } جو بھی اللہ سے ڈرے وہ اس کے لیے راستہ بنا دیتا ہے [2] اور اسے ایسی جگہ سے عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق : 2 - 3]

    لہذا شرعی طور پر طلاق دینے والے کیلیے اللہ تعالی آسانیوں کے راستے کھول دیتا ہے، نیز شادی کے بندھن کی قدر کرنے والے اور اس کی اہانت سے دور رہنے والے کیلیے اللہ تعالی برکتیں ڈال دیتا ہے، چنانچہ وہ شادی کے اچھے نتائج سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

    طلاق کی کچھ اقسام اور صورتیں ایسی بھی ہیں جو کہ بذاتہٖ خود خاوند پر گناہ ہوتی ہیں، جیسے کہ نبی ﷺ نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (ام ایوب کو طلاق دینا گناہ ہے)

    اللہ کے بندو!

    {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56] اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

    اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔

    یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، ، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما،یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کر دے ، یا رب العالمین!

    یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہم سب مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! اپنے دین، قرآن اور سنت نبوی ﷺ کا بول اپنی قدرت اور طاقت کے ذریعے بالا فرما، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق بھی عطا فرما، نیز باطل کو ہمیں باطل دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! باطل کو ہمارے لیے پیچیدہ مت بنا کہ مبادا ہم گمراہ ہو جائیں، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، ان کی خطاؤں سے درگزر فرما۔

    یا اللہ! ہمارے سابقہ ، لاحقہ، خفیہ، اعلانیہ سب گناہ معاف فرما دے، اور جن کے بارے میں تو ہم سے زیادہ جانتا ہے وہ بھی معاف فرما دے، تو ہی ترقی و تنزلی دینے والا، تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔

    یا اللہ! ہمارے تمام معاملات سنوار دے، یا اللہ! تمام مسلمان مقروض لوگوں کے قرضے چکا دے، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمانوں بیماروں کو شفا یاب فرما، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! تمام تر معاملات میں ہمارے لیے مثبت نتائج برآمد فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

    یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں اور لشکروں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے مسلمانوں اور ان کی اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں اور لشکروں سے محفوظ فرما،یا ارحم الراحمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمارے ملک کی ہمہ قسم کے شر اور خرابی سے حفاظت فرما، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! بیت المقدس کے قیدیوں کو رہا فرما، یا اللہ! بیت المقدس کے قیدیوں کو رہا فرما، یا اللہ! بیت المقدس کے قیدیوں کو رہا فرما، یا اللہ! بیت المقدس کو شان و شوکت والا، مضبوط اور پر وقار بنا، یا ذالجلال والا کرام! یا اللہ! بیت المقدس کو روزِ قیامت تک تیری عبادت اور بندگی کے لیے آباد فرما دے، یا اللہ! بیت المقدس کو تیری بندگی اور عبادت سے معمور فرما دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! بیت المقدس کو جارحین کی جارحیت سے محفوظ فرما، زیادتی کرنے والوں سے محفوظ فرما، ظالموں کے ظلم سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

    یا اللہ! مسلمانوں پر آن پڑنے والی مشکلات رفع فرما دے، یا ذالجلال والا کرام! یا اللہ! مسلمانوں پر آن پڑنے والی مشکلات رفع فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں میں پھوٹنے والے فتنوں کا خاتمہ فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! اسلام کی حفاظت فرما، مسلمانوں کی املاک اور مال و دولت کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کی کمزوریوں پر پردہ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

    یا اللہ! مسلمانوں کی مدد، نصرت اور معاونت فرما، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو تیری جانب رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمیں ایمان سے محبت کرنے والا بنا، ایمان کو ہمارے دلوں میں مزین فرما، نیز کفر، فسق اور تیری نافرمانی کی ہمارے دلوں میں نفرت ڈال دے، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمیں راہِ راست کا راہی بنا، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہم بھی تیری مخلوق میں سے ایک ہیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے اپنا فضل ہم سے مت روک، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

    یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! تیری مرضی کے مطابق اس کی رہنمائی فرما، اور اس کے تمام اعمال اپنی رضا کیلیے قبول فرما، یا اللہ! انہیں صرف اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں صرف اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! تیری مرضی کے مطابق اس کی رہنمائی فرما، اور اس کے تمام اعمال اپنی رضا کیلیے قبول فرما، یا اللہ! انہیں صرف اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا ذالجلال والا کرام!

    ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا و آخرت میں بھائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔

    اللہ کے بندو!

    {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]

    اللہ عز و جل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں