قرآن مجید کی کئی آیتوں میں مضاف الیہ تثنیہ ہونے کے باوجود مضاف کو جمع لانا۔۔۔

ہدایت اللہ فارس نے 'قرآن - شریعت کا ستونِ اوّل' میں ‏دسمبر 15, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ہدایت اللہ فارس

    ہدایت اللہ فارس -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2020
    پیغامات:
    13
    قرآن مجید میں کئی جگہوں پر مضاف الیہ تثنیہ ہونے کے باوجود مضاف کو جمع کیوں لایا گیا ہے؟؟ مثلافقد صغت قلوبكما)
    (ایک بھائی کا سوال)

    ہدایت اللہ فارس

    ج/ اگر تثنیہ کی اضافت ایسی چیز کی طرف ہورہی ہو جو تعدد کا فائدہ دیتی ہے تو مضاف کو جمع لانا ہی عربی زبان میں زیادہ فصیح مانی جاتی ہے۔کیوں کہ دو تثنیہ کو ایک ساتھ جمع کردینا(گو دونوں ایک ہی کلمہ ہو) غیر فصیح ہے، ناپسندیدہ ہے۔
    اس ناپسندیدگی کی وجہ ہے: مضاف اور مضاف الیہ کا اس طرح جمع ہوجانا گویا کہ وہ ایک ہی کلمہ ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ) تثنیہ (فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا) [التحريم ٤]
    یہاں دیکھیں " قلوب" جمع لایا گیا ہے جبکہ بات دو آدمی کے سلسلے میں ہورہی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایک آدمی کے پاس ایک ہی دل ہوتا ہے (مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ) وجہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ عربی زبان میں فصیح یہی ہے کہ جب کسی چیز کی اضافت تثنیہ کی طرف کی جائے تو اسے جمع لائیں۔
    البتہ غیر قرآن میں تثنیہ کی اضافت تثنیہ کی طرف جائر ہے مثلا: اقطعوا يَدَيْهما، اسی طرح سے افراد بھی جائز ہے جیسے: اقطعوا يَدَهما۔۔۔۔، الا یہ کہ اس ترتیب کی وجہ سے التباس واختلاف پیدا نہ ہو ورنہ مضاف کو حسب واقع لانا واجب ہوگا مثلا کسی کا کہنا (جب وہ دو آدمی سے ایک ہی غلام خریدے): اشتريت من الرجلين عبدهما، یہاں "عبد" واحد ہے جو اس بات پر دال ہے کہ وہ دونوں آدمیوں کے درمیان میں مشترک ہے۔ ورنہ اگر کوئی ہر ایک سے ایک ایک غلام خریدے تو کہیں گے:اشتريت من الرجلين عبدیهما‌۔ تاکہ معنی ملتبس نہ ہوجائے، لیکن اگر معنی واضح ہو تو جمع ہی لائیں گے۔۔۔
    (وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقۡطَعُوۤا۟ أَیۡدِیَهُمَا )
    (فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا)
    [​IMG]ایک دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ اگر مضاف اور مضاف الیہ میں گہرا تعلق ہو تو مضاف کو مفرد و جمع دونوں طرح سے لانا درست ہے۔
    پہلے کی مثال جیسے : وإن تعدوا نعمت الله لا تحصوها
    یہاں لفظ نعمہ مفرد اور مضاف ہے جوکہ بہت ساری نعمتوں پر مشتمل ہے،جن کا شمار ناممکن ہے۔ ہماری بحث اس سے نہیں ہے، اصل بحث قرآن مجید میں
    مضاف الیہ تثنیہ ہونے کے باوجود مضاف کو جمع لانے سے ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : فقد صغت قلوبكما......، والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما...

    (" قلوبکما" میں قلوب جمع ہے جوکہ مضاف ہے اور اس کا مضاف الیہ " کُما" ہے اور یہ تثنیہ ہے
    دوسری آیت میں بھی یہی حال ہے یعنی " ایدی جمع ہے مضاف ہے اور اس کا مضاف الیہ" ھما" تثنیہ ہے۔)
    دونوں آیتوں میں غور کرنے سے جواب بالکل واضح ہوجائے گا(جوکہ اوپر بیان کیا گیا) یعنی دل اور ید (ہاتھ) کا تعلق انسان کے ساتھ بہت ہی گہرا ہے، دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے اسی لیے مضاف الیہ تثنیہ ہونے کے باوجود مضاف جمع لایا گیا۔

    اسی طرح سے ایک جواب یہ بھی ہے: کہ جب مضاف انسانی جسم کا کوئی جز بن رہا ہو تو اسے جمع لایا جاسکتا ہے اگرچہ مضاف الیہ تثنیہ ہی کیوں نہ ہو۔۔
    کتب نحو میں اس کی توجیہ کئی طرح سے بیان کی گئی ہے لیکن سمجھنے کے اعتبار سے یہ توجیہات زیادہ آسان ہیں۔ اور پہلا جواب اصح ہے۔۔۔
    واللہ اعلم بالصواب
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں