اللہ تعالی کے بارے میں مذاھب باطلہ کا تصور

منہج سلف نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏اگست 29, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    اللہ تعالی کے بارے میں مذاھب باطلہ کا تصور

    بسم اللہ الرحمن الرحیم​

    السلام علیکم!
    آج میں جو موضوع پیش کررہا ہوں اس کا مصنف ایک نو مسلم ہے جو پہلے کسی وقت میں ایک ہندو نوجوان تھا اور ہر وقت بتوں کے سامنے سر خم کرتا تھا مگر جب اللہ نے اسے دین کے نور سے منور کیا اور اس کے اندر توحید کی روشنی داخل ہوئي تو انہوں نے آج کے مسلمان اور ہندو کافر کے درمیان فرق پر تحقیق کرنے کے دن رات ایک کردیا اور جب اسے پتہ چلا کہ آج کل کے مسلمان اور ہندو میں کوئی فرق نہیں تو انہیں بہت تکلیف ہوئی اور انہوں نے اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کی کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس فریب اور دھوکہ سے آگاہی دینی چاہیے کہ ان کو اسلام اور ہندو مذھب میں فرق معلوم ہوسکے۔
    تو آج میں ان محترم کی کاوش کو آپ سب بھائیوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں کہ ہیمں بھی اس نادر علم سے کچھ فائدہ پہنچ سکے اور ہم بھی اصل دین کو بخوبی جان سکیں۔ ان شاءاللہ


    ہندو اور اللہ کا تصور:

    یہ کہنا غلط ہے کہ ہندو اللہ کے منکر ہیں- ہندو صرف ایک اللہ کو مانتے ہیں- یہ الگ بات ہے کہ وہ اللہ کو کسی دوسرے نام سے یاد کرتے ہیں- مثلا ان کی مشھور مذھبی کتاب "بھگوت گیتا" میں اللہ تعالی کو "وشنو" کا نام دیا گیا ہے- اس کو تمام عیوب سے پاک، ہر شئے کا خالق، نگراں اور فنا کرنے والا قرار دیا گیا ہے- اسی کو مظلوموں کی جائے پناہ اور حق کے متلاشیوں کی منزل مقصود قرار دیا گیا ہے- ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وشنو اوتاروں کی صورت میں زمین پر ظاہر ہوتا ہے- بقول ان کے نرسنگھ اس کا چوتھا، رام چندر جی ساتواں اور کرشن جی مہاراج آٹھواں اوتار ہیں- بقول ان کے وشنو مختلف وقتوں پر مختلف صورتوں میں زمین پر ظاہر ہوتا ہے- عین اسی طرح جس طرح آج کے مسلمان بھی کہنے لگے ہیں:
    وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
    اتر پڑا مدینے میں مصطفی ہوکر
    چاچڑ وانگ مدینہ ڈسے تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
    ظاہر وچ پیر فریدن تے باطن وچ اللہ
    مٹی دا بت بنا کے آپے وچ بہ گیا
    جگاں نوں بناون والا کہڑی کھیڈے پے گیا

    (استغفراللہ، نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ)​

    ہندو عقائد کے مطابق ان بزرگوں کی عبادت فی الحقیقت "وشنو" ہی کی عبادت ہے- اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان دیوتاؤں کو خوش کرنا لازم اور ضروری ہے ورنہ کہاں وشنو اور کہاں یہ انسان خاکی- غور فرمائیں کہ آج کے مسلمان کا عقیدہ اس سے کسی مقام پر مختلف ہے یا یہی ہے؟
    جنگ عظیم دوم کے شعلوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا- مجھے بھی فوجی ملازمت کے سلسلے میں مشرق بیعد (برما وغیرہ) میں گھومنے کا اتفاق ہوا- وہاں عوام الناس کا مذھب بدھ مت ہے- ان کے گھروں اور عبادت خانوں میں جانے کا اکثر اتفاق ہوا- گوتم بدھ کے بت دیکھے- ان کا عقیدہ بھی ہندو عقیدے سے ملتا جلتا ہے صرف ناموں کا فرق ہے-

    بتوں کے پجاری:

    یہ کہنا غلط ہے کہ بت پرست لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں- وہ لوگ بھی پتھر کو پتھر ہی جانتے ہیں- اگر پتھروں کی پوجا مقصود ہوتی تو وہ پہاڑوں کی پوجا کرتے، جہاں بڑے بڑے پتھر ہوتے ہیں اور وہ سڑکوں پر پتھر استعمال کرکے پتھر کی بےحرمتی کبھی نہ کرتے- مگر پتھر کو جب کسی قابل احترام بزرگ شخصیت سے منسوب کرکے لایا جاتا ہے تو پھر اس پتھر کا احترام کرنا اور اس کی پوجا کرنا وہ فرض جانتے ہیں- وہ ان بزرگوں کی پوجا کرتے ہیں جن سے وہ پتھر یا لکڑی کا بت منسوب ہوتا ہے، مقصود بت نہیں بلکہ بزرگ کی ذات ہوتی ہے- بت کا پجاری دنیا میں کوئی نہیں بلکہ پوجا بزرگ کی مقصود ہوتی ہے-

    انقلابات زمانہ:

    جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ائٹم بم "بڑا لڑاکا" اور "چھوٹا لڑاکا" نامی گرائے گئے اور جاپان ملبہ بن گیا- جاپان کی شکست کے ساتھ ہی جرمن فوجیں بھی منتشر ہوگئيں اور جنگ عظیم دوم ختم ہوگئی- پھر پاکستان بن گیا- الحمد اللہ- ہندو دوست بھارت چلے گئے، مسلمان دوست میسر آئے- وہ وقت بھی عجیب تھا کہ جذبہ اسلام سب میں شدت سے پایا جاتا تھا، سب کے سب صوم صلواۃ کے پابند تھے، صبح اور دوپہر کو تلاوت قرآن باقائدگی سے کرتے تھے- میرے کانوں نے قرآن کی تلاوت نہایت ہی میٹھی اور پر کشش آواز میں پہلی بار 14 اگست 1947ء کو رات بارہ بجے ریڈیو پر سنی "صحبت صالح ترا، صالح کنند" کے مصداق مجھے بھی زندگی میں پہلی بار قرآن پاک پڑھنے کا شوق ہوا- میرے باپ کی دعائوں نے اپنا اثر دکھایا اور میں عملا مسلمان ہوگیا، مندر کی بجائے مسجد جانے لگا- میں ابھی آہستہ آہستہ قرآن پاک پڑھتا تھا مگر میرے دل میں ایک بات راسخ ہوچکی تھی کہ بغیر ترجمے کے قرآن پڑھنا دوسری زندگی میں تو مفید ہوگا مگر اس زندگی میں ہرگز مفید نہیں، اس لیے میں قرآن کے عربی الفاط کے ساتھ ساتھ اردو الفاظ پر زیادہ غور کرتا تھا- میں نے ایک چھوٹا سا قرآن پاک خریدا جو تاج کمپنی کا شایع کردہ تھا اور نیچے لفظی ترجمہ لکھا ہوا تھا، وہ آج بھی میرے پاس موجود ہے- میں ایک روز میں چند ہی آیات پڑھتا تھا لیکن ان کا ترجمہ ذھن میں رکھتا اور آیات کو ملا کر نتائج اخذ کرتا رہتا تھا- اس طرز عمل پر میرا اختلاف بھی کچھ دوستوں سے ہوا- قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے:

    " یہ بابرکت کتاب ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل فرمائی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کرسکیں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں-"
    (ص 38/29)

    "کیا پھر وہ لوگ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟"
    (محمد 47/24)

    میں نے سوچا:
    کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں؟
    فکر فردا نہ کروں، محو غم دوش رہوں-

    (شکوہ:اقبال)​
     
  2. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    علماء سے اختلاف:

    مسلمانوں کی ہم نشینی کی وجہ سے کچھ علمائے کرام کو سننے کا بھی اتفاق ہوا- میں نے مندر میں تعلیم پائی تھی اور بت پرستوں میں زندگی کا ایک حصہ گزر چکا تھا، اس لیے میں نے علمائے کرام کی یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ مکہ کے کافر و مشرک اللہ تعالی کے منکر تھے اور پتھر کے بتوں کو خدا مان کر پوجا کرتے تھے- یہ سوال ذھن میں رکھتے ہوئے میں نے قرآن کریم میں سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی- میں نے قرآن میں پڑھا کہ قریش مکہ بھی صرف ایک اللہ تعالی ہی کو اللہ، خالق کل، مالک کل، حاجت روا اور مشکل کشا مانتے تھے- آپ کو اس بات سے حیرت ضرور ہوگی مگر قرآن پاک سے میرے اس دعوے کے تصدیق ہوتی ہے-

    کفار مکہ اور اللہ کا تصور:

    رسول اللہ ۖ کے بتائے ہوئے طریقے پر کفار مکہ نے چلنے سے انکار کردیا، تو اللہ تعالی نے نے حکم دیا کہ ان سے اللہ کے بارے میں چند سوال پوچھو اور ان سے جو جواب متوقع تھا وہ بھی نقل کردیا، فرمایا:

    " اور بلاشبہ اگر آپ ان سے پوچھیں کا آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور کس نے شمس و قمر کو، تو فورا کہیں گے: اللہ نے! پس یہ کہاں ہیں؟ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے، اور تنگ کردیتا ہے، بے شک اللہ ہر چيز کو جانتا ہے- اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا، پھر کس نے زمین کی موت (ویرانی) کےبعد اسے زندہ کیا، تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے! تو آپ کہدیجیے: سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن ان کے اکثر بے عقل ہیں-"
    (العنکبوت: 29/ 61-63)

    " (اے نبیۖ!) کہدیجے: تمہیں آسمان اور زمین سے کون رزق بہم پہنچاتا ہے یا قوتّ سماعت و بصارت کا مالک کون ہے جو کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ ضرور کہین کے: اللہ! کہدیجیے: کیا پھر بھی تم ڈرتے نہیں؟"
    (یونس: 10/31)

    میں حیران اس بات پر تھا کہ اس طرح اللہ کو ماننے میں کیا نقص ہے؟ ہم بھی تو اسی طرح مانتے ہیں مگر اس طرح ماننے والوں کو نہ ڈرنے والے قرار دیا گیا- آخر کیوں؟ پھر ارشاد ہوا:

    " اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے: اللہ نے، آپ فرمادیجے: تمام تعریفوں کے لائق تو اللہ ہی کی ذات ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے-"
    (لقمان:31/25)

    میں ان آیات کو دل میں جذبہ جستجو دبائے ہوئے یکجا کرتا چلا گیا- حیران تھا کہ آخر نقص کیا ہے کہ ہماری طرح اللہ کو ماننے کے باوجود انھیں نہ جاننے والے قرار دیا گیا ہے- پھر میں نے ارشاد ربّانی پڑھا:
    " ان سے کہیے کہ اگر تو کو کچھ علم ہے تو بتاؤ کہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ کی! کہو پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے: اللہ! کہو پھر تم ڈرتے کیوں نہین؟ ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چيز پر اقتدار کس کا ہے اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے- کہم پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتا ہے؟"
    (المؤمنون: 23/ 84-89)

    جب میں نے آیات پڑھیں تو دوسری باتوں کے علاوہ مجھے مسلمانوں کے اس شعر کی صحت پر بھی سخت اختلاف ہوا:
    خدا کا پکڑا چھڑا لے محمّد ۖ
    محّمد ۖ کا پکڑ ا چھڑ ا کوئی نہیں سکتا-
    آخر کیوں اور کس طرح؟ حضرت محمد ۖ کے مقابلے میں اللہ کو مجبور کیوں ظاہر کیا گیا ہے؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا-
    اگر آپ غور فرمائيں تو مندرجہ بالا آیات کو پڑھنے سے یہ بات صاف صاف سمجھ میں آتی ہے کہ کفار مکہ آسمان و زمین کا خالق، شمس و قمر کو پابند ضابطہ کرنے والا، آسمانوں سے پانی نازل فرمانے والا رزق دینے کے علاوہ اس میں کمی و بیشی کرنے والا، ہر چيز کا کامل اور مکمل علم رکھنے والا، آسمانوں سے پانی نازل فرمانے والا، اس سے مردہ زمین کو جلا بخشنے والا، مالک قوت سماعت و بصارت، مردہ چيز سے زندہ اور زندہ چيز سے مردہ کو پیدا کرنے والا، اس ناپیدا کنار کائنات کی منصوبہ بندی کرنے والا، زمین اور اس کے اندر کی چيز کا مالک، سات آسمانوں اور عرش عظیم کا پروردگار جس کے دست قدرت میں ہر چيز ہے، ہر کسی کو پناہ دینے والا، اور وہ جس سے کوئی بھی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا، اللہ ہی کو مانتے تھے- اسی طرح جس طرح آج میں اور آپ مانتے ہیں، بلکہ میں قرآن میں یہ دیکھ کر حیران ہوگيا تھا کہ کفار مکہ دعائيں بھی اسی اللہ سے مانگتے تھے جس سے میں اور آپ مانگتے ہیں- ارشاد باری تعالی ہے:

    " اور جب انھوں نے کہا: اس ہمارے اللہ! اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ-" (الانفال: 8/32)

    یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار مکہ ہمارے نبی پاک ۖ کی تبلیغ کے بڑھتے ہوئے اثر کو روک نہ سکے تو تھک ہار کر ابو جہل نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس کے غلاف کو پکڑ کر یہ دعا مانگی تھی- مگر آپ اس بحث میں نہ پڑیں کہ کون تھا اور اس نے کس وقت کس حالت میں دعا مانگی تھی؟ آیت صاف بتا رہی ہیں کہ کوئی منکر قرآن ہی تھا- ایک اور جگہ اس کی وضاحت ہے:

    " اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارا حصہ یوم حساب سے قبل ہم کو دے ڈال-"
    (ص:38/16)

    میں جوں جوں یہ آیات پڑھتا گیا میری حیرت بڑھتی گئی- یہ بات بھی عجب ہے کہ ایک قوم ہر چيز کا مالک و خالق ہماری طرح اللہ ہی کو مانے اور ہر مشکل وقت پر دست دعا بھی اسی کے سامنے دراز کرے جس کے سامنے ہم کرتے ہیں- پھر بھی ہمیں اس قدر دعوائے مسلمانی ہو اور وہ کافر پائے- اس قوم سے بار بار کہا جائے "تم کہاں گھوم رہےہو؟ " ان میں سے اکثر بے عقل ہیں"- کیا تم ڈرتے نہیں ہو"؟ ان میں سے اکثر بے علم ہیں"- کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے ہو؟" " تم کس دھوکے میں پڑے ہوئے ہو"؟ وغیرہ وغیرہ- اس الجھن کو بھی قرآن کریم نے دور فرمادیا-
     
  3. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    کافر کیوں:

    میں کفار مکہ اور نبی کریم ۖ کے مابین وجہ دریافت کرنے کے لیے بے قرار ہوگیا- یا کتاب مقدس جو:

    " لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضع تعلیامت پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے-"
    (البقرہ: 2/185)

    اس میں، میں نے ایک آیت پڑھی- جس نے اس مسئلے کو واضح کردیا-

    " وہ اللہ کے سوا ان لوگوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نقصان دے سکتے ہیں نہ فائدہ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے حضور ہماری سفارش کرتے ہیں- اے نبی ۖ! ان سے کہدیجیے: کیا تم اللہ کو آسمان اور زمین کی ان چيزوں کی خبر دے رہے ہو جن کا اس کو علم نہیں ہے- اللہ پاک اور بلند و بالا ہے اس چيز سے جو یہ شرک کرتے ہیں-"
    (یونس: 10/18)

    غور فرمائيں! اس آیت میں ان لوگوں کا قصور بتادیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے ہاں کسی فوت شدہ بزرگ کی روح کو پکارا جائے کہ وہ سفارش کرے، اسی کو اللہ نے شرک قرار دیا ہے- اور اسی مضمون کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے:

    " جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسروں کو ولی بنا رکھا ہے (ان کی بابت وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی بندگی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں-"
    (الزمر: 39/3)

    خلاصہ کلام:

    قرآن پاک پڑھنے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ کفار مکہ بھی ہندؤوں کی طرح ایک اللہ کے منکر نہ تھے بلکہ وہ اسی سے دعائيں مانگتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی عبادت بھی کرتے تھے، یعنی ان کی نذر و نیاز اور چڑھاوے بھی دیتے تھے، ان کے نام کے وظیفے بھی کرتے تھے کہ ان کی روحوں کو خوش کرلیا جائے تو یہ ہماری سفارش کرتے ہیں اور قرب الہی کا ذریعہ ہیں- ورنہ کہان اللہ اور کہاں یہ آدم خاکی- بس یہ تھا فرق اور یہ تھا جھگڑا- ذرا غور کرنے پر میری روح لرزگئی کہ ہمارے مسلمان بھی تو یہی کچھ کررہے ہیں- اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں تو آج ہی توبہ کرلیں اور سوچيں کہ ہم کیا کررہے ہیں- مولانہ حالی نف کیا خوب کہا:

    کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر، جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر
    کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر، کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
    مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
    پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
    نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائيں، اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائيں
    مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائيں، شہیدوں سے جاجا کر مانگيں دعائيں
    نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
    نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے


    اقتباس: توحید اور ہم
    تالیف: بشیر احمد لودھی
    نظر ثانی: حافظ صلاح الدّین یوسف
     
  4. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960



    وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
    ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
    رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
    وہ بدلہ گیا آ کے ہندوستا ں میں
    ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
    وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

     
  5. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں