اجتہاد و تقلید-10: اجتہاد کے لیے صرف قرآن و حدیث کا علم کافی نہیں، فتوی وقت کے تقاضے، ۔۔۔

دیوان نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏جولائی 20, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. دیوان

    دیوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 4, 2015
    پیغامات:
    38
    اجتہاد کے لیے صرف قرآن و حدیث کا علم کافی نہیں
    حدیث 1
    خرجنا في سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجه في راسه فاحتلم فسال اصحابه هل تجدون لي رخصة في التيمم قالوا ما نجد لك رخصة وانت تقدر على الماء فاغتسل فمات فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر بذلك قال قتلوه قتلهم الله الا سالوا اذا لم يعلموا فانما شفاء العي السؤال انما كان يكفيه ان يتيمم ويعصب على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده۔ (سنن ابی داؤد، حسن)
    حضرت ابن عباسؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص زخمی ہوگیا اس کے بعد اس کو احتلام ہوگیا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو غسل کا حکم کیا اس نے غسل کیا (جس کی وجہ سے زخم خراب ہوگیا) اور وہ شخص فوت ہوگیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان لوگوں نے اس کو قتل کر ڈالا اللہ ان کو قتل کرے کیا لاعلمی کا علاج پوچھ لینا نہیں ہے؟ اس کو تو یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا پھر اس پر مسح کرلیتا اور باقی بدن کو دھو ڈالتا۔‘‘
    فائدہ:
    · رسول اللہ ﷺ نے نصوص پر غور کرنے کی تعلیم فرمائی یا اگر ناواقف ہے تو پوچھ لینا چاہیے۔
    · رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کا سبب یہ تھا کہ وہ صحابہ فتوی دینے کے اہل نہیں تھے جس کے نتیجے میں ایک جان ضائع ہوگئی۔
    · یہ خطائے اجتہادی نہیں بلکہ نااہل کا فتوی دینے کا معاملہ ہے۔کیونکہ اجتہادی خطا پر اجر کی بشارت تو خود آپ ﷺ نے دی ہے۔
    · انہوں نے آیت قرآنی وان کنتم جنبا فاطھروا کو سامنے رکھتے ہوئے فتوی دیا جب کہ و ان کنتم مرضی کی اصل غایت (مفہوم) ان کی نگاہ سے اوجھل رہی۔
    · نصوص پر غور و فکر کرکے مسئلہ نکالنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔
    · نااہل کا اجتہاد کرنا کسی حال میں جائز نہیں چاہے اس کا اجتہاد صحیح بھی ہوجائے۔
    · جو شخص خود ہی مطالعہ کرکے اپنے مسئلے کے حل ڈھونڈے وہ دراصل اجتہاد کا دعوی کررہا ہے۔
    · قرآن و حدیث کا علم ہونا اور بات ہے اجتہاد کی صلاحیت ہونا اور بات ہے۔
    فتوی وقت کے تقاضے کو دیکھ کر دیا جاتا ہے
    حدیث 2
    عن بسر بن ارطاة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لا تقطع الايدي في الغزو۔ (سنن الترمذی کتاب الحدود، صحیح)
    حضرت بسرؓ بتاتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے:’’جنگ (کی حالت) میں (چوروں) کے ہاتھ مت کاٹو۔
    فائدہ:
    · فتوی وقت کے تقاضے کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے۔
    · سیدنا عمرؓ نے قحط سالی کے زمانے میں چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا روک دی تھی۔
    لا يقطع في عذق ولا عام السنة (مصنف عبدالرزاق)
    فتوی مقاصد شریعت کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے
    حدیث 3
    زيد بن ثابت رضي الله عنه قال ارسل الي ابو بكر مقتل اهل اليمامة فاذا عمر بن الخطاب عنده قال ابو بكر رضي الله عنه ان عمر اتاني فقال ان القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن واني اخشى ان يستحر القتل بالقراء بالمواطن فيذهب كثير من القرآن واني ارى ان تامر بجمع القرآن قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك ورايت في ذلك الذي راى عمر(الحدیث) (صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن)
    حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جنگ یمامہ میں حضرت ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا وہاں جاکر دیکھتا ہوں کہ عمرؓ بھی موجود ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ عمرؓ میرے پاس یہ مشورہ لے کر آئے ہیں کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ صحابی شہید ہوگئے ہیں اور مجھے (عمرؓ کو) اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف معرکوں میں حفاظ صحابہ شہید ہوتے رہے تو قرآن کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا اس لیے میری (عمرؓ کی) رائے یہ ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ (تحریری طور پر) جمع کرنے کا حکم فرمادیں۔ میں نے عمرؓ کو جواب دیا ہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم اس کام (میں) خیر ہی خیر ہے اور بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے دل کو بھی اسی بات پر اطمینان حاصل ہوگیا جس بات پر عمر کو اطمینان حاصل تھا۔
    فائدہ:
    · حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا میں حضرت عمرؓ کے مشورے پر عمل کرنے پر تردد تھا۔ بلکہ وہ اس کام کو بدعت میں داخل سمجھ رہے تھے۔ انؓ کے الفاظ تھے:
    ’’میں نے عمرؓ کو جواب دیا ہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟‘‘
    لیکن حفاظت دین جو اولی الامر (حاکم) کا کام ہے کی ضرورت نے ان کو اس کام کے ٹھیک ہونے پر اطمینان بخشا اور یہ کہ یہ عمل بدعت نہیں ہے۔
    · مجتہد بھی اپنے اجتہاد میں مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھتا ہے اور جو چیز ا ن کے حصول میں معاون نظر آئے گی اس کو اختیار کرنے کا حکم دے گا۔
    تلقی بالقبول
    اسلام میں عملی مسائل کا اصل دارومدار تعامل امت پر ہے۔ جس حدیث پر امت بلانکیر عمل کرتی چلی آرہی ہو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جس حدیث پر پوری امت نے عمل ترک کردیا ہو اس کی سند خواہ کتنی ہی صحیح ہو وہ معلول قرار پاتی ہے۔ جیسےالماء طھور لاینجسہ شئی الا ماغلب علی ریحہ او طعمہ او لونہیعنی پانی پاک ہے جب تک اس کی بو، ذائقہ اور رنگ نہ بدل جائے، ضعیف ہے لیکن اس کو علما نے قبول کیا ہے اور اس پر امت میں ہمیشہ سے عمل رہا ہے۔ اسی لیے محدثین کا اصول ہے کہ جس حدیث کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہوتو وہ حدیث صحیح ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو امت کے علما اور صلحا نے قبول کرلیا اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ جیسے قرآن کا ایک مصحف میں جمع کرنے کی کوئی روایت نہیں البتہ صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے اور امت نے اس کو قبول کرلیا۔ تلقی بالقبول کی مثال صحیح بخاری کی مقبولیت ہے جس کی صحت کی بنیاد پر اس کو اصح الکتاب بعد الکتاب (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب) کہا جاتا ہے۔ اس پر بدعات جائز نہیں ہوجاتیں کیونکہ وہاں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔
    تقلید کی مثالیں
    تقلید کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کا قول اس حسن ظن پر قبول کرلینا کہ وہ جو بتارہا ہے وہ حق ہے اور دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔
    اس تعریف کو سامنے رکھیے تو پتہ چلے گا کہ شرعی علوم میں تقلید کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔ گو معروف فقہی تقلید نہ صحیح لیکن عملا یہ سب تقلیدہی ہے۔
    · لغت میں ائمہ صرف ائمہ نحو کی تقلید کی جاتی ہے۔
    · راویوں کو ضعیف اور ثقہ کہنے میں علمائے اسما الرجال کی تقلید کی جاتی ہے۔
    · راویوں کی پیدائش رہائش وموت میں تاریخ دانوں کی تقلید کی جاتی ہے۔
    · حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں محدثین کی تقلید کی جاتی ہے۔
    · تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ نہ وہ اعراب سے واقف ہے نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہے۔ صرف اس حسن ظن پر وہ قبول کرتا ہے کہ لگانے والے نے بادلیل لگائے ہیں۔ دلیل سے آگہی نہیں ہے۔ اس کے باجود اس کی تلاوت باعث اجر اور مقبول ہے۔
    · ایمانیات میں تو سارے کے سارے مسلمان تقلیدی ہیں جو کچھ علمائے کرام نے انہیں بتادیا انہی باتوں پر ان کا ایمان ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص مسلمان تو ہے لیکن اسلام کے حق ہونے کے تفصیلی دلائل اسے نہیں معلوم۔ اس کے باوجود وہ مسلمان ہے۔
    حسن ظن
    تقلید کی جو تعریف کی گئی ہے وہ یہ ہے:
    ’’کسی کا قول اس حسن ظن پر قبول کرلینا کہ وہ جو بتارہا ہے وہ حق ہے اور دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔‘‘ ہمارے علوم کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر ہوتا ہے۔ اس میں بتانے والے کی علمیت پر حسن ظن قائم ہوتا ہےکہ وہ صحیح بتائے گا۔جس طرح محدثین اور خاص طور پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اور صحاح کے مؤلفین کی تحقیق پر اعتماد اس حسن ظن پر قائم ہے کہ انہوں حدیث کی صحت کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہے (حاشیہ: [1])۔ اسی طرح مجتہدین کے متعلق بھی یہی حسن ظن ہے کہ انہوں کسی مسئلے میں جو فیصلہ فرمایا ہے اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہے۔
    حدیث 4
    عن ابن عمر قال قال عمر اني ان لا استخلف فان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف وان استخلف فان ابا بكر قد استخلف (الحدیث)(سنن ابی داؤود كتاب الخراج والامارة والفيء، صحیح)
    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں ( تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکرؓ نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔
    · سیدنا ابوبکرؓ نے جب خلافت کے لیے سیدناؓ کو نامزد کیا تھا تب اس نامزدگی کی کوئی دلیل نہیں پیش کی تھی۔ اس کے باوجود سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ پر اپنے حسن ظن کا اظہار کیا ہے اور ابوبکرؓ کے عمل کو رسول اللہ ﷺ کے عمل کے ساتھ ہی ذکر کیا ہے اور دونوں میں سے کسی کے عمل اختیار کرنے کو برابر کا درجہ دیا۔
    عن ابن عباس اذا حدثنا ثقة بفتيا عن علي لم نتجاوزها (فتح الباري لابن حجر العسقلاني، صحیح)
    حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب کوئی ثقہ (قابل بھروسہ) آدمی ہم سے حضرت علیؓ کا فتوی بیان کرے تو ہم اس سے ذرا بھی پس و پیش نہیں کریں گے۔
    · سیدنا عباسؓ نے سیدنا علیؓ پر اپنے حسن ظن کا اظہار فرمایا۔
    [1]: کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ کرنا خود ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی چیز نہیں۔ عام طور پر علمائے کرام بھی کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ تقلیدًا ہے نہ کہ تحقیقًا۔ علم کی دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق کو مان کر چلنا پڑتا ہے۔ ورنہ علوم کی ترقی رک جائے گی۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں